Wednesday 6 December 2017

کعبے کا محاصرہ، ذکرِ قیامت سے دولت اسلامیہ تک

کعبے کا محاصرہ، ذکرِ قیامت سے دولت اسلامیہ تک
گذشتہ سال جولائی میں جب مدینہ میں مسجدِ نبوی کے قریب خود کش حملہ ہوا تو بہت سے لوگ چونک گئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان اسلام کے مقدس مقامات پر حملے کرے؟
لیکن شاید وہ بھول چکے تھے، یا پھر اس بات سے لا علم ہیں، کہ 20 نومبر 1979 کو کعبے پر نہ صرف خونی حملہ ہوا تھا بلکہ اس پر مسلمانوں کے ایک شدت پسند گروپ نے قبضہ بھی کر لیا تھا۔
خانہ کعبہ کا محاصرہ: 38 سال پہلے کیا ہوا تھا
’مسجد نبوی کے قریب خودکش دھماکہ، چار اہلکار ہلاک‘
یہ دن تھا پندرھوی صدی ہجری کی پہلی تاریخ، یعنی یکم محرم چودہ سو ہجری۔
یہ واقعہ بیشتر مسلمان ممالک میں بھلا دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں بات بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن یہ یوں اہم ہے کہ اکیسویں صدی کی جہادی شدت پسند تنظیموں اور داعش کی جڑیں آپ کو اس تحریک میں نظر آتی ہیں۔ اور یہ خطے کی سیاست میں ایک اہم موڑ تھا۔
ہوا کیا تھا؟
یکم محرم 1400 ہجری یعنی بیس نومبر 1979 کو مسجد الحرام میں فجر کی نماز کے فوراً بعد گولیاں چلیں۔ مسلح افراد نے لوگوں پر اپنی بندوقیں تان لیں۔ لوگوں میں افرا تفری پھیل گئی، دو سکیورٹی گارڈ مارے گئے۔
پھر گروپ لیڈر، جہیمن العثیبی نامی 33 سالہ سعودی شہری سامنے آئے اور انھوں نے 'المہدی' کی آمد کا اعلان کیا اور اپنے ایک ساتھی کو سب کے سامنے بلا کر اس کا تعارف کرایا کہ یہ محمد بن عبداللہ القریشی ہیں۔
مسجد الحرام کے احاطے پر گروپ کا قبضہ تقریباً دو ہفتے تک رہا اور اس کے محاصرے کے بعد سکیورٹی افواج نے بالاخر تین دسمبر کو احاطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اپنے آپ کو مہدی کہلانے والے محمد تو مارے گئے لیکن جہیمن سمیت 63 افراد کو سزائے موت سنائی گئی، اور سب کے سر قلم کر دیے گئے۔
کعبے میں ہونے والے اس حملے میں کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ مارے گئے، مسجد الحرام کا فرش اور ستون خون سے رنگ گئے۔
قبضے کے بعد سعودی حکام نے کافی حد تک خبروں کا 'بلیک آؤٹ' نافذ کر دیا تھا اور کنٹرول سنبھالنے کے بعد جلدی مرمت کا کام شروع کر دیا۔ واقعہ کو بھلانے میں ان کی مدد اس کے بعد پیش آنے والے عالمی واقعات نے کر دی۔
ابتدائی نتائج اور رد عمل
جب کعبہ پر حملے کی خبریں نشر ہوئیں تو پاکستان میں یہ افواہیں پھیل گئیں کہ یہ ایک امریکی منصوبہ ہے، ضیہونی سازش ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر ایک مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا۔ حملے میں سفارتخانے کے چار اہلکار مارے گئے جن میں دو پاکستانی بھی شامل تھے۔ دو حملہ آور بھی مارے گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ کعبے پر حملے کے بعد کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ حملے کے پیچھے ایران ہے (ایران میں اسلامی انقلاب اور آیت اللہ خمینی کو اقتدار میں آئے ہوئے کچھ ہی ماہ ہوئے تھے) جس پر خمینی نے بیان دیا کہ ایسا نہیں ہے اور شاید حملہ کا ذمہ دار امریکہ ہو۔
امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد امریکیوں کو پاکستانی حکام سے یہ شکایت رہی کہ انھوں نے حملے کے وقت سفارتی عملے کو تحفظ فراہم کرنے اور مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔
اس وقت پاکستان میں جنرل ضیا الحق کو سیاسی حکومت برطرف کیے کوئی ڈھائی سال ہوا تھا، اور صرف آٹھ ماہ قبل ہی انہوں نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر عالمی رہنماؤں کی اپیلوں پر توجہ نہ دی اور بھٹو کو اپریل 1979 میں پھانسی دی گئی۔
نہ امریکہ جنرل ضیا سے اس وقت خوش تھا اور نہ جنرل ضیا امریکہ سے اور سعودی عرب بھی امریکہ سے کچھ ناراض تھا۔
کچھ ہی ماہ قبل سعودی عرب نے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو ملک سے اس لیے نکال دیا تھا کہ ان کی سعودی شاہی خاندان کے اندر اختلافات کے بارے میں ایک رپورٹ امریکی میڈیا میں لِیک ہو گئی تھی۔
ایسے میں 25 دسمبر کو افغانستان پر روس کا حملہ پاکستان اور سعودی عرب، دونوں کے لیے مفید ثابت ہوا۔
سعودی عرب نے اپنے ملک میں سلفی طرز کے جہادی خیالات رکھنے والی تنظیموں اور افراد کے غم و غصے کا رُخ افغانستان میں ’جہاد' اور 'لادین' حملہ آوروں کی طرف موڑ دیا۔ جہیمن العثیبی اور ان کی تنظیم، جو سعودی شاہی خاندان کو اسلام کا دشمن سمجھتی تھی، ان کی بغاوت ان ہی کے خلاف تھی لیکن روسی افواج کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد سلفی جہادی سوچ اور جنگجو سعودی عرب کی طرف سے دنیا کے لیے تحفہ بن گئے۔
پاکستان میں جنرل ضیا الحق کو ظاہر ہے یہ فائدہ ہوا کہ دنیا نے ان کے فوجی آمر ہونے پر اعتراض کرنا چھوڑ دیا۔ جہادی سوچ کو فروغ دینے میں ان کو سیاسی فائدہ بھی بہت پہنچا اور امریکہ ان کو ایک اہم دوست ماننا شروع ہو گیا۔
جہیمن العثیبی جیسی سوچ رکھنے والوں کے لیے سعودی عرب نے ایک راستہ اور دشمن فراہم کیا، اور کافی حد تک وہ ایسے سلفی غصے کو مملکت سے باہر رکھنے میں کامیاب رہا۔
وقتاً فوقتاً سعودی عرب میں کہیں کوئی ایسا حملہ ہو جاتا ہے لیکن یہ بات کم ہی ہوتی ہے کہ ایسے جہادی عناصر (اسامہ بن لادن سمیت) کا ابتدائی غصہ سعودی حکمرانوں پر ہو۔
جہیمن العثیبی کی تحریک ایک سعودی تحریک تھی جس میں دنیا بھر سے نوجوان مسلمان شامل ہوئے۔ مصر میں اخوان کے ساتھ ان کا ایک رابطہ بنا تھا لیکن اسلامی دنیا کی تنظیم نو کا منصوبہ ان کے لیے سعودی حکمرانوں کے خلاف کارروائی سے شروع ہوتا تھا۔
قیامت کے ذکر سے دولت اسلامیہ تک
جہیمن کی تحریک قیامت کی نشانیوں اور مہدی کی آمد پر مرکوز تھی۔ انھوں نے اپنے برادرِ نسبتی (زوجہ کے بھائی) کو المہدی بیان کیا اور قیامت سے متعلق حدیثوں کا سہارا لیا۔ اور ان کے بقول ان کی تحریک سعودی حکمرانوں کی پُرتعیش زندگی اور اسلام سے دور ہونا بھی قیامت کی نشانیوں میں شامل تھا۔
اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کی بھی کچھ باتیں جہیمن کی تنظیم سے مشترک ہیں۔ ہاں دولت اسلامیہ قیامت کی نہیں بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کی باتیں کرتی ہے، لیکن کافی حد تک ان کا طرز تدریس جہیمن کے گروپ سے ملتا ہے۔ جہادی انتہا پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے ایک امریکی ماہر کول بنزیل کہتے ہیں کہ داعش کے کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ہینڈل ایسے ہیں جن میں جہیمن کا نام آتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دولت اسلامیہ کے لیے سعودی عرب کی تاریخ کے اس بھولے ہوئے واقعے کی اہمیت بہت ہو اور یہ بھی بعید نہیں کہ دولت اسلامیہ کا آخری ہدف بھی کعبہ اور مسجد الحرم ہی ہو۔
From BBC Urdu

No comments:

Post a Comment

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...