Saturday 18 April 2020

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا. 
تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری. 
ایک بار ضرور پڑھے.  
نوٹ.  
فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے گزریں جو  عظیم الھی فلسفی ملا صدر الدین شیرازی جو نہ شیعت بلکہ عالم اسلام کا سرمایہ اور عظیم سپوت تھے جن کے فلسفے کی بنیاد ہی نہج البلاغہ پر تھی اور جو تمام فلسفیوں میں سب سے زیادہ قرآن حدیث سے آگاہ تھے اور توسل اہلبیت جن کی خصوصیت تھی، ان کی شخصیت کے خلاف کی گئیں تھیں  اس لے اس عظیم الھی فلسفی شارح اصول کافی اور مفسر قران اور عالم نہج البلاغہ عظیم عرفانی شخصیت کے مختصر حالات پر پوسٹ کر رہے ہیں تاکہ لوگ حقیقت حال سے اگاہی حاصل کرسکیں.  ہمیں کسی کی تنقیص مقصود نہیں ہر آدمی اپنا نظریہ قائم کرنے میں ازاد ہے .میں اس الھی فلسفی کے لئے حق دفاع استعمال کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے چند پہلو بہت اختصار سے عرض کر رہا ہوں   

 ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا عظیم الھی و شیعی فلسفی 1571ء میں شیراز میں پیدا ہوئے.   آپ مکتبِ حکمتِ متعالیہ کے بانی تھے.  دنیاشیعت میں ان سے عظیم تر فلسفی پیدا نہیں ہوا.  نہ صرف تشیعُ بلکہ عالم اسلام اس عظیم فلسفی پر فخر کرتا ہے.  یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شیعوں کے بجائے اہل سنت نے ملاصدرا کے فلسفے کا ترجمہ کیا ان مترجم میں مولانا مودودی بھی شامل ہیں اور حیدر آباد دکن میں اہل سنت کے جامعات میں ملا صدرا کی شُہرہ آفاق کتاب الاسفا الاربعہ کو نصاب میں شامل کیا گیا. اس سے پہلے میں نے اپنی سابقہ چند پوسٹ میں جن اہل عرفان کا ذکر کیا وہ سب بزرگان فلسفیانہ طور پر ملا صدرا کے مکتب حکمت متعالیہ سے وابستہ تھے اور عرفان میں ان بزرگان کا سلسلہ آغاء سید علی شوشستری اور پھر آقاء محمد علی جولا سے ملتا ہے.  ملا صدرا نے افلاطون،  ارسطو،  ابن عربی،  ابن سینا،  فلسفہ الاشراق اور فلسفہ مشائین کا گہرائ سے مطلعہ کیا.  آپ نے فلسفے کے کئ پیچیدہ مسائل جو اکثر بزرگ فلسفیوں سے حل نہیں ہوسکے تھے بڑی کامیابی سے حل کر لیا.  اور آپ نے حکمت متعالیہ کی بنیاد رکھی اور تقریباً 400 سال سے آپ کا فلسفہ unquestionable ہے. ملا صدرا نے فقہاء اور فلسفیوں میں جو اختلاف تھے انہیں بڑی کامیابی سے حل کرکے فقہاء اور فلسفیوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دین اسلام کی عظیم خدمت کی.  ملا صدرا تمام مسلمان فلسفیوں میں قرآن و احادیث اور تفسیر سے زیادہ آگاہی رکھتے تھے اور توسل اہلبیت اَنکا خصوصی افتخار تھا.  انہوں نے سات حج پا پیادہ انجام دئے.  ملا صدرا نے شیعہ سنی احادیث کے علاوہ نہج البلاغہ سے بھر پور استفادہ کیا.  ملا صدرا کی تالیفات شدت سے عرفانی روش سے متائثر ہیں.  حکمت متعالیہ کی یہ خصوصیات اور امتیاز ہے کہ وہ کشف و شہود کے پیاسوں کو بھی سیراب کرتی ہے اور بحث و استدلال کے شائقین کو بھی علم و یقین تک پہنچاتی ہے.  آپ نے اصول کافی کی شرح بھی لکھی اور مختلف سورہ ہائے قران کی تفسیر بھی لکھی.  آپ نے 50 کے قریب مختلف کتب تصنیف کیں مگر سب سے اہم شُہرہ آفاق کتاب جو حکمتِ متعالیہ کی اساس ہے وہ ہے   " الاسفار الاربعہ" یعنی نفسِ انسانی کے چار سفر.  یہ کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد کا اردو ترجمہ مولوی سید مناظر احسن گیلانی اور دوسری جلد کا ترجمہ مولانا مودودی نے کیا.  ملا صدرا نے سب سے پہلے حرکتِ جوہریہ کا نظریہ دیا ( اقاء خمینی رح کی کتاب معاد کی بنیاد اسی نظریہ حرکتِ جوہریہ پر ہے جو انتہائ گہرے مطالب پر مبنی ہے  جسے سمجھنے کے لئے میں نے اس ضخیم کتاب کا 12 مرتبہ مطالعہ کیا تب جا کر 50 یا 60 % تک سمجھنے کے قابل ہوا. ) 
اس الھی فلسفی کو اپنے دَور میں بہت سے لوگوں کا جن میں کئ با اثر اہل علم بھی تھے کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مولا علی ع کا فرمان ہے  کہ جب لوگ کسی شے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اُسکے دشمن ہوجاتے ہیں.  ملا صدرا حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہویے کہ قم کے قریب ایک کٹک نامی چھوٹے سے گاؤں میں گوشہ نشین ہوگئے اور 12 سال گوشہ نشینی میں گزار دئے مگر اُس گوشہ نشینی کو اللہ کی طرف سے ایک عنایت سمجھا اور بقول ملا صدرا اس گوشہ نشینی اور تنہائ میں میں نے  مخلوق سے رخ پھیر کر اپنا رخ اپنے رب کی طرف کرلیا اور پھرغور فکر کی ایسی منزلیں طے کیں کہ انوار الھی کے دروازے مجھ پر کھل گئے اور کائنات کے عظیم راز مجھ پر منکشف ہوئے. اور میری روح ایک نورانی کیفیت کے ساتھ چمک اُٹھی ملا صدرا نے اپنی گوشہ نشنی کو مولا علی ع کی گوشہ نشینی کے دوران آپ کے مشہور فرمان سے نسبت دی جس میں مولا علی ع نے فرمایا  . 
 " میں سوچتا تھا کہ اپنے کٹے ہویے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس مصیبت پر صبر کروں جو بڑے کو بوڑھا اور بچے کو پیران سالی تک پہنچا دیتی ہے اور مومن صبر کرکے اپنے رب تک پہنچ جاتا ہے  " 
ملا صدرا فرماتے ہیں کہ میں نے مولا علی ع کی سیرت پر عمل کیا اور اپنی راہ پر صبر و سکون سے قائم رہا.
اس تنہای اور گوشہ نشینی میں اللہ نے مجھے مبدا و معاد کے چہرے سے پردہ کشائ کی توفیق دی جس سے یہ عظیم کتاب الاسفار وجود میں آئ اور اس کتاب کی حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جو اپنے مادی بدن کو شریعی ریاضتوں سے تھکا چکا ہو.  اس کتاب میں ملا صدرا نے نفس کے چار سفروں کا ذکر کیا جو یہ ہیں :
1:  پہلا سفر.      سیر من الخلق الی الحق
2:  دوسرا سفر.  سیربالحق فی الحق
3:  تیسرا سفر.  سیر من الحق الی الخلق. 
4:  چوتھا سفر.  سیرفی الخلق بالحق
 ایران میں یہ کتاب آغا جوادی آملی اور آغا حسن زادہ آملی ہی پڑھ رہے ہیں اور آعا حسن زادہ عاملی نے اس کی شرح بھی لکھی ہے اور پاکستان میں شاید ہی کوئ اسکے پڑھانے کی پوزیشن میں ہو سواے استاد جواد نقوی کے مگر میری معلومات کے مطابق یہ پاکستان میں کہیں بھی نہیں پڑھائ جارہی شاید اس کے لئے کوئ استاد میسر نہیں .
12 سال کی تنہائ اور گوشہ نشینی کے بعد حوزہ قم کے کچھ اہل علم کو حقیقت کا احساس ہوا آپ کی طرف متوجہ ہوے اور آپ کو اَس گاؤں سے قم لاے اور حوزے میں آپ نے درس دینا شروع کیا تو متلاشیان حق کی کثیر تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئ.  
جیسے ابتداء میں میں نے عرض کیا تھا کہ ملا صدرا نے سات پا پیادہ حج کیے اور ساتویں حج کے سفر کے دوران 1641ء میں بصرا میں آپ علیل ہوے جس کے نتیجے میں اس الھی فلسفی کی زندگی کا سفر، سفرِ حج میں مکمل ہوگیا.  آپ کے جسد خاکی کو بصرا سے نجف اشرف لایا گیا اور نجف اشرف میں مسجد علی میں آپ کو دفن کیا گیا.  
اسی الھی فلاسفی کو دنیا سے گزرے تقریباً چار سو سال ہوگئے مگر آج تک آپ کے علم فلسفہ کے نظریات چیلنج نہیں کیے جاسکے اور متلاشیان حق کے لئے آج بھی چراغِ  راہ ہیں.  آپ کے بعد آپکے عظیم شاگرد اور صاحب تفسیر صافی ملا فیض کاشانی نے آپ کی راہ کو جاری رکھا.  علامہ مجلسی جو اگرچہ فلسفی نہیں بلکہ عظیم محدث  تھے ملا فیض کاشانی کے شاگردوں میں شامل تھے.  
مذہب تشیعُ کی قابل قدر اورعرفانی و فلسفی ہستیاں مثلاً آقاء جوادی آملی،  آقاء حسن زادہ عاملی،  آقاء مصباح یزدی،  آقاء بہجت،  آقاء علامہ محمد حسین طباطبائ صاحب تفسیر المیزان،  اقاء سید علی قاضی،  اقاء خمینی،  اقاء شہید مطاہری،  آقاء جواد ملکی تبریزی،  آقاء محمد علی شاہ آبادی،  آقاء سید احمد کربلائ،  اقاء بہاری اور اقاء سید علی شوشستری یہ بزگوار مشرب حکمت متعالیہ ملاصدرا کے پروردہ تھے جن میں پہلے تین بزرگوار الحمد اللہ با حیات ہیں خدا وند عالم ان کا سایہ ملت پر قائم رکھے. 
سرکار آیت اللّہ علامہ الشیخ محمد حسین نجفی قبلہ جو متکلم ہونے کے ناطے اگرچہ اہل فلسفہ سے اختلاف رکھتے ہیں مگر اپنی کتابوں میں ملا صدرا رح کا بہت احترام سے ذکر فرمایا ہے۔
شعبہ نشر و اشاعت مرکزی جامع مسجد امام الصادق ع پارس وادئ کاغان

No comments:

Post a Comment

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...