Thursday 2 November 2017

موسیقی سے لگاؤ رکھنے والوں تک یہ دلچسپ رپورٹ ضرور پہنچائیں

موسیقی سے لگاؤ رکھنے والوں تک یہ دلچسپ رپورٹ ضرور پہنچائیں.
بیگم نے مسلسل تنگ کرتے ہوے بچے کو وارننگ دینے کی خاطر کہا
'میں تھپڑ ماروں گی اب شرارت کی تو'.
میرے زہن میں اچانک انڈین فلم کا ایک ڈائیلاگ گردش کرنے لگا
'تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب, پیار سے لگتا ہے'
اور ساتھ ہی فلم کے کردار اور جس موقع پر یہ ڈائیلاگ بولا گیا وہ سین تصویری شکل میں میرے زہن میں ابھرنے لگا اور کچھ دیر خیال کی سکرین پر جمے رہنے کے بعد دم توڑ گیا.
روز مرہ کے معمولات کے دوران اچانک یہ فلم کا خیال اور سین میرے زہن میں کیسا نمودار ہوا?
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو کے دوران مخصوص الفاظ سے ہمیں کوی واقعہ یا شخص یاد آ جاتا ہے. اسے سائکالوجی کی زبان میں
Neuro-Assosiation
کہتے ہیں. مطلب آپ کے زہن میں کسی مخصوص لفظ کا کسی واقعہ یا کسی سین کے ساتھ اس طرح منسلک ہو جانا کہ جب بھی وہ لفظ سنا جاۓ تو وہی مخصوص واقعہ یا سین آپ کے زہن اور نفسیات میں ترو تازہ ہو جاۓ.
جیسا کہ ایک عام فقرہ 'تھپڑ ماروں گی' کے استعمال سے ایک مخصوص فلمی سین اپنی رنگینیوں کے ساتھ میرے زہن میں ابھر آیا.
اس فارمولا کی بنیاد پر نفسیات کے ماہرین بہت سے نفسیاتی مسائل کا حل کرتے ہیں.
لیکن اسی فارمولا کی بنیاد پر انڈین گانوں میں اسلامی شریعت کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصدصرف اور صرف مسلمانوں کے زہنوں اور نفسیات سے اسلامی تشخص اور غیرت کو ختم کرنا ہے.
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں سبحان اللہ کا لفظ ہم اپنے رب کی تخلیق یا حکمت سے متاثر ہو کر اللہ کی حمد بیان کرنے کے لیے کرتے ہیں. لیکن انڈین گانے میں ہیرو کا ہیروئین کو دیکھ کر سبحان اللہ کے لفظ سے شروع کر کے گانا گانے سے اس پاک لفظ سبحان اللہ کی
Neuro-Assosiation
ایک فلمی گانے اور سین کے ساتھ ہو گئی. اور مسلمان لڑکوں نے غیر ارادی طور پر
نامحرم لڑکیوں کی خوبصورتی کو دیکھ کر سبحان اللہ کہنا اور گنگنانا شروع کر دیا. (استغفراللہ).
اسی طرح شب جمعہ اسلامی شریعت میں ایک فضیلت اور عبادت والی رات ہے. اس شب میں مسلمان خاص عبادت اور ریاضت کا اہتمام کرتے ہیں. شب جمعہ کا لفظ سنتے ہی ہمارے زہنوں میں عبادات کا تصور جاگتا ہے.
لیکن ایک انڈین گانے میں شب جمعہ کے تقدس کا توڑ اس طرح کیا گیا کہ "جمعے کی رات ہے چمے (kiss) کی بات ہے.." تاکہ جمعہ کی رات کے خیال سے مسلمانوں کے زہن میں عبادات کے بجاۓ لہو لہب اور شراب و شباب کا تصور جنم لے.
روحانی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ اصل اللہ والا تو وہ ہے جس کو دیکھ کر اللہ یاد آ جاے.
لیکن انڈین گانے 'تجھ میں رب دکھتا ہے' کے زریعے یہ تصور دیا گیا کہ رب نامحرم محبوب میں نظر آنا چاہیے.
اب ہمارے ہاں نوجوان ایسانا محرم محبوب تلاش کرتے ہیں جس میں انہیں رب دکھتا ہو.
اسی طرح گانا 'میرا عشق صوفیانہ' بھی صوفیا کی تزکیہ نفس والی پاک زندگی اور ان کے خالص عشق حقیقی کے نظریہ اور تحریک کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے.
اب صوفیاء سے حسن ظن رکھنےوالے نوجوان یہ گانا گانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ کو صوفی شمار کرنے لگتے ہیں.
حضرت علی رضی اللہ تعالی سے محبت رکھنے والے سنی اور شیعہ عقیدت میں آپ کے نام سے منسلک منقبت اور کلام کو پڑھنے اور آپ کی محبت میں آپ کے نام (علی علی) کاورد کرنے کے قائل ہیں.
اس مبارک نام کو بھی گانوں میں استعمال کر کے شوبز کے جلووں کے ساتھ منسلک کرنا بھی اس عقیدت کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے.
اور بےوقوف مسلمان نوجوان اب منقبت کے بجاۓ بڑے طرز کے ساتھ 'یا علی' اور 'علی مولا' جیسے گانے گنگناتے نظر آتے ہیں. اور صبح شام یہ گانے گنگنانے والوں کے زہنوں میں یقینا ان گانوں کے ساتھ فلماۓ گئے فلمی سین اور نیم عریاں اجسام بھی ابھرتے ہوں گے.
اسلام خلاف دشمنی کی اس ریس میں یہ دشمن لوگ ہمارے نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہماری محبت پر بھی ضرب لگانے سے باز نہ آۓ اور نبی کے شہر لفظ 'مدینہ' کو بھی گانے میں استعمال کر لیا.
"یہیں مندر اور مدینہ..
تیری گلیاں, تیری گلیاں.."
جہاں مدینہ کے میٹھے نام سے دل میں محبت رسول, زہن میں گنبد خضرا کا عکس اور لب پر صل علی' جاری ہوتا تھا, اب اس پاک لفظ کے تصور سے یہ گاناسننے اور گانے والوں کے دل میں ان کا دنیاوی محبوب, زہن میں فلمی گانے کی عکسبندی اور لب پے انڈین گانا رکس کرے گا. معاز اللہ.
عجب بات یہ کہ علما نے بھی اس سازش کے خلاف کوئ آواز نہیں اٹھای. شائد وہ (شریعت کی روشنی میں) موسیقی کو ہی حرام قرار دے دینے کے بعد مطمعئن ہیں اور اب ان کو کوئ غرض نہیں کہ موسیقی کا موضوع اور متن کیا ہے.
موسیقی اور فلموں کے شوقین لوگ عملی طور پر کمزور مسلمان ہی سہی لیکن نظریاتی طور پر تو مسلمان ہیں نا. ان کا نظریہ سلامت رکھنا بھی تو ہماری ذمہ داری ہے. جب اللہ توفیق دے گا تو وہ ایک اچھے عملی مسلمان بھی بن جائیں گے. لیکن اس وقت ان کے ایمان اور اسلامی تشخص کو بچانا سب سے اولین ضرورت ہے.
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی مسلمان کا خون نہیں کھولتا جب اخلاق کی تمام حدیں پار کر کے ٹی وی پر ناچنے والے لڑکا اور لڑکی یہ گاتے ہیں کہ "بیٹھے بٹھاۓ جنت دکھاۓ یہ عشق"??
انڈیا میں 1948 میں جب دوردرشن ٹی وی کا افتتاح ہوا تھا تو افتتاحی تقریب میں ان کی وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ 'آج ہم نے پاکستان سے ثکافتی جنگ کا آغاز کیا ہے'.
ثکافتی جنگ تو وہ لوگ آج سے کئی سال ہہلے ہی جیت گئے تھے جب کیبل نیٹورک عام ہوا تھا اور نوجوانوں نے اپنی گفتگو میں ہندی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال شروع کر دیا تھا, خواتین نے انڈین کھانے بنانے شروع کر دیے تھے اور عوام نے انڈین مصنوعات کا استعمال عام کر دیا تھا. اب تو بات ثکافتی جنگ سے بڑھ کر مزہبی سالمیت کی جنگ بن گئی ہے.
اس نازک وقت پر علما کے علاوہ محب وطن اور با شعور لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہی حال رہا تو ڈر ہے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ اسلامی تشخص ختم ہو جاۓ اور دشمن گلوبل ولیج کے نام پر پھر سے دو قومی نظریہ کی تردید کر دیں اور ہمارے پیارے وطن کی آزادی ہی خطرے میں پڑ جاۓ.
اللہ نہ کرے کبھی ایسا وقت آے, ہمیں بطور قوم ابھی سے جاگنے اور متحد ہونے کی ضرورت ہے.
ہر مسلک اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے کیونکہ دشمنوں نے ہمارا کوئ مسلک,کوئ فرقہ اور کوئ عقیدہ نہیں چھوڑا جس پے انوں نے وار نہ کیا ہو.
مسلمان عوام, خاص طور پر موسیقی کے شوقین خواتین و حضرات کو, اس سازش سے آگاہی اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے. والدین, اساتذہ یہاں تک کہ پاکستانی گکوکاروں کو بھی اپنے چاہنے والوں کو سمجھانہ چاہیے. موسیقی کے دل دادہ ان کی بات تو سب سے زیادہ سنیں گے.
اگر صرف پاکستان کے مسلمان گلوکار ہی متحدہ طور پر اپنے چاہنے والوں سے ایسے انڈین گانوں کے باۓکاٹ کا مطالبہ کریں تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان کے مسلمان اس گھناونی سازش سے بچ جائیں گے.
موسیقی کے شوقین لوگوں سے درخواست ہے کہ براۓ مہربانی ایسے گانے سننا اور گانا چھوڑ دیں اور دوسروں کو بھی یہ تعلیم دیں.
اللہ پاک ہمارے مزہب اور ہمارے وطن کا تشخص اور وقار سلامت رکھے. آمین.
( مزکورہ تحریرمنقول ہے)

No comments:

Post a Comment

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...