Showing posts with label saying. Show all posts
Showing posts with label saying. Show all posts

Wednesday, 4 March 2020

امام باقرج فرماتے ہیں

امام باقرج فرماتے ہیں
اے جابر ضرورت کے وقت ھمارے دشمن سے مدد نہ لینا،نہ ہی اس سے کھانا مانگنا،اور اس سے کوئی سوال بھی نہ کرنا حتی کہ ایک گھونٹ پانی کا بھی،کیونکہ جب وہ جھنم میں ہو گا تو مومن اس کے پاس سے گذرے گا تو وہ کہے گا ،اے مومن میں نے تمھارا فلاں فلاں (کام )کیا تھا ،تو مومن اس کی بات سن کر شرمسار ہو گا اور اسے جھنم سے نجات  دلوائے گا، اور مومن کو مومن اسی وجہ سے کہا گیا ہے،کیونکہ وہ اللہ سے کسی کے لیے امان(شفاعت) طلب کرے گا تو اللہ اس کی امان کو قبول کرے گا
المحاسن ج1 ص 185

Thursday, 25 January 2018

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!
🔺کچھ عرصہ قبل جسٹس سعید الزمان صدیقی کے ایک بیان پر کافی لے دے ہوئی، اور مذاق اڑایا گیا کہ باپ اور بیٹی کا ایک کمرے میں تنہا بیٹھنا اسلامی اعتبار سے درست نہیں،
جبکہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے. میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے معاشرے کا ہر باپ جنسی درندہ ہوتا ہے مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ جب کچھ ذہنی و جنسی بیمار مردوں پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے،
تب وہ باپ بھائی، چچا یا ماموں نہیں رہتے،

اورشیطان کے وار سے بلعم باعور جیسے بڑے بڑے عابد نہیں بچ سکے تو ہم کیا ہیں؟ میری خالہ کے گھر ایک غریب دائی صدقہ لینے آتی ہے.
ایک بار میری موجودگی میں وہ آئی، اور باتوں باتوں میں خالہ کو کوڈ ورڈز میں کہنے لگی کہ اس ماہ میں نے تین کیس "خراب" کیے، جن میں سے ایک باپ، دوسرا بھائی اور تیسرا ایک چچا کا تھا.

🔺یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے نو بالغ لڑکوں یا گھر کے مردوں میں ہیجان سب سے پہلے اپنے گھر کی مستورات کے نامناسب لباس دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.

🔺مائیں، بیٹیاں اور بہنیں گہرے گلے، آدھی آستینوں، اور چھوٹے چاکوں والی قمیضوں کے ساتھ چست پاجامے پہن کر بنا دوپٹے کے گھر میں پھریں گی تو شیطان کو اپنا وار کرنے کا بھر پور موقع ملے گا.

🌴اسی لیے اسلام نے عورت کو سینہ چھپانے اور اوڑھنی ڈالنے کا حکم دیا ہے.گھر کا ماحول ماں پاکیزہ بنائے گی تو اولاد حیا دار ہوگی. حیا اپنے ساتھ انوار و برکات لازما لاتی ہے ورنہ جو تربیت میڈیا ہمارے گھروں کی کر چکا ہے، اس کے یہی ثمرات اور نتائج دیکھنے کو ملیں گے.

🔺ایسے معاشرے میں جہاں شادی کی عمر 28، 30 سال ہو، وہاں 14 سال کا ایک نو عمر لڑکا گھر کی عورتوں کے حلیوں سے حظ کشید کرکے مشترکہ خاندانی نظام کا "فائدہ" کیونکر نہ اٹھائے گا.

🔺اس تحریر میں طبقہ اشرافیہ کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ
ان کے ہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے.
یہاں موضوع بحث لوئر یا مڈل کلاس دنیا دار گھر ہیں جن میں پرائیویسی کا تصور نہیں،
وہاں ایسے واقعات رونما ہوجا تے ہیں اور "ڈھانپ" دیے جاتے ہیں،
کیونکہ زنان خانہ اور مردان خانہ اب ہمارے نزدیک آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہے،

اور ایک یا دو کمروں میں رہائش پذیر خاندان پرائیویسی کے مفہوم سے بھی واقف نہیں. جدیدیت کی دوڑ میں حیا سے غفلت برت کر جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، ان کا سدباب نہ کیا گیا تو حالات مزید بھیانک ہوتے جائیں گے.

🛑 اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں:
بچیاں اور مائیں ساتر لباس استعمال کریں. فیشن کریں مگر ستر ڈھانپنے کے اہتمام کے ساتھ. فیشن صرف ہاف سلیوز، گہرے گلوں یا چست پاجاموں کا نام نہیں. 🛑

🌴حرمت مصاہرت کے مسائل بچیوں، بچوں اور باپوں کو ازبر ہونے چاہییں. 🌴

بچیاں بلوغت کے بعد والد کو نہ دبائیں نہ ہی کوئی اور جسمانی خدمت کریں یا لپٹیں. جسمانی خدمت بیٹے یا مائیں کریں اور اگر اشد ضرورت یا مجبوری ہو تو اس بارے میں گنجائش کی تفصیلات و مسائل کے لیے مفتیان کرام سے رجوع کریں.

📛بیٹیاں باپ کے ساتھ بیٹھ کر اکیلے یا سب کے ساتھ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں. اور مائیں بھی اپنے چودہ پندرہ سال کے بیٹوں سے جسمانی کنکشن یعنی گلے لگانے یا ساتھ لٹانے سے پرہیز کریں.

📛 باپ بیٹیوں کے کمرے میں دروازہ کھٹکھٹا کر آئیں یا دور سے کھنکھارتے ہوئے آئیں،
تاکہ بچیاں اپنا لباس درست کر لیں. یہی صورت ایک یا دو کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہو کر بھی اختیار کی جا سکتی ہے.

📛 باپ بچیوں کو سوتے سے مت جگائیں، اور یہ ذمہ داری والدہ سر انجام دے، کیونکہ سوتے میں لباس بےترتیب ہو سکتا ہے.

📛بھائیوں یا محرم رشتوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں ہاتھ مارنا، پیار میں گلے لگنا یا سلام کے لیے ہاتھ ملانا صرف ڈراموں فلموں کی حد تک ہی رہنے دیں.

ایک اسلامی معاشرے کے مکینوں کے لیے اس کی کوئی گنجائش نہیں.
مگر اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بہنوئیوں یا کزنز سے ہاتھ ملانا اور شادی بیاہ میں ان کے یا محرم رشتوں کے ساتھ ناچناگانا معیوب نہیں سمجھا جاتا، تبھی شیطان اپنے داؤ پیچ آزما لیتا ہے.

📛لاڈ میں چچاؤں کے گلے جھول جانا، ماموؤں سے بغل گیر ہونا، باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر انڈین ڈرامے دیکھنا جن کی کہانی ہی ناجائز معاشقوں سے شروع ہو کر ناجائز بچوں کے جنم سے آگے بڑھتی ہے، اور حمل و زچگی کے مناظر عام سی بات ہیں، ان سب سے بچیں.

🌷بچیوں کو سکھائیں کہ وہ خود کو جتنا ڈھانپ کر رکھیں گی اور ریزرو رہیں گی، اتنا ہی ان کے ایمان، قلب و چہرے کے نور میں اضافہ ہوگا اور کسی کو ان سے "چھیڑ چھاڑ" کی بھی جرات نہ ہوگی.

یاد رہے کہ یہ سب اقدامات حرف آخر نہیں، بلکہ احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اپنانے کے باوجود اگر کوئی محرم رشتہ جنسی درندہ بن جائے تو اس کا علاج سنگساری یا بندوق کی ایک گولی ہے تاکہ بقیہ درندوں کی حیوانیت کو لگام دی جا سکے.....⚠

Saturday, 13 January 2018

اولیاء الٰہی کی صفات

اولیاء الٰہی کی صفات


حدیث :

عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰہ ،من اولیاء اللّٰہ الذین لا خوف علیہم ولاہم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاہرہا،فاہتموا بآجلہا حین   اہتم الناس بعاجلہا،فآمتوا منہا ما خشوا ان یمیتہم ،وترکوا منہا ما علموا عن سیترکہم فما عرض لہم منہا عارض الا رفضوہ،ولا خادعہم من رفعتہا خادع الا وضعوہ،خلقت الدنیا عندہم فما یجددونہا،وحربت بینہم فما یعمرونہا،وما تت فی صدورہم فما یحبونہا،بل یہدمونہا فیبنون بہا آخرتہم ،ویبیعونہا فیشترون بہا ما یبقیٰ لہم ،نظروا الیٰ اہلہا سرعی قد حلت بہم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]



ترجمہ :

انس ابن مالک   نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم   ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا   وہ   دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو   بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ   تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔



حدیث کی شرح :

غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو   پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں <یعلمون ظاہراً من الحیاة الدنیا وہم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ <مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔



جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے <یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔



جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ   سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند   رہتاہے ۔






انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے   اچھے ہیں وہ   دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔



آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے   لوگ کتنی محنت کرتے   جبکہ   یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا،   بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔

یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :



1.      اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔

2.      وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں

3.      وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔



ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔



اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔



--------------------------------------------------------------------------------

[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱

[2] سورہ روم آیہ/ ۷

[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )

[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱

[5] سورہٴ بقرة

Tuesday, 26 December 2017

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرامین

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرامین

🌹من وعظ اخاہ سراً فقد زانه و من وعظ علانیة فقد شانه
جو اپنے مومن بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے وہ اس کی شان بلند کر دیتا ہے اور جو علانیہ نصیحت کرتا ہے وہ اس برادر مومن کو رسوا کر دیتا ہے ۔(تحف العقول،ص۵۲۰)
🌷ما اقبح بالمومن ان تکون له رغبة تذله
مومن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی خواہش کرے جو اس کے لئے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتی ہیں ۔(تحف العقول،ص۵۲۰)

💐اقل الناس راحة الحقود
کینہ رکھنے والے کو کبھی آرام نہیں ملتا ۔(تحف العقول،ص۵۱۸)

🌺لا یشغلک رزق مضمون عن عمل مفروض
رزق کا ضامن خدا ہے اس لئے تمھارا رزق تمھیں واجبات سے نہ روک دے ۔(تحف العقول عن آل الرسول،ص۵۱۹)

🥀التواضع نعمة لا تحسد علیه، تواضع ایسی نعمت ہے جس سے کوئی حسد نہیں کرتا۔(تحف العقول،ص۵۱۸)

🌼من الفواقر اللتی تقصم الظهر ،جارٍ اِن رای حسنة اخفاھا و اِن رای سیئة افشاه
انسان کے لئے ایک کمر شکن مصیبت وہ پڑوسی ہے جو اسکی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور اسکی برائیوں کو فاش کرتا ہے(بحارالانوار،ج۷۸،ص۳۷۲)

🌻جرأۃ الولد علیٰ والدہ فی صغرہ تدعوا الیٰ العقوق فی کبرہ
بچپن میں فرزند کی گستاخی بڑے ہو کر اس کے عاق ہونے کا سبب بنتی ہے ۔(بحارالانوار،ج۷۸،ص۳۷۴)

🍁لا تمار فیذھب بھاءک ولا تمازح فیجترء علیک
لڑائی جھگڑے سے انسان کا احترام ختم ہو جاتا ہے اور زیادہ مذاق کرنے سے انسان گستاخ ہو جاتا ہے ۔(بحارالانوار،ج۷۶،ص۵۹)
محتاج دعا ،،،،، ایس کاظمی 🌺

شب ولادت با سعادت گیارھویں تاجدار ولایت و امامت حضرت امام حسن  عسکری علیہ السلام بہت بہت مبارک ہو

Wednesday, 22 November 2017

Search Yourself


خود کو قرآن مجید میں ڈھونڈیں. انتہائی​ دلچسپ اور سبق آموز
ميں قرآن ميں کہاں ہوں ؟
-------
ایک جليل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قيس ايک دن بيٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے يہ آيت پڑھی
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ انبياء 10)
(ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ايسی کتاب نازل کی جس ميں تمہارا تذکرہ ہے، کيا تم نہيں سمجھتے ہو“۔
وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجيد تو لاؤ۔ اس ميں، ميں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور ديکھوں کہ ميں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟
انہوں نے قرآن مجيد کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعريف يہ کی گئی تھی
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ o وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ o وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ِ (الذريٰت-17،18،19)
(ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے ميں سوتے تھے، اور اوقات سحر ميں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال ميں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (السجدہ۔ 16)
(ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہيں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُميد سے پکارتے ہيں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو ديا ہے، اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان۔ 64)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتيں بسر کرتے ہيں“۔
اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ ميں ہے،
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (اٰل عمران۔ 134)
(ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی ميں (اپنا مال خدا کي راہ ميں) خرچ کرتے ہيں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہيں، اور خدا نيکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔
اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت يہ تھی،
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر۔ 9)
(ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہيں خواہ ان کو خود احتياج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا ليا گيا تو ايسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہيں“۔
اور کچھ لوگوں کی زيارت ہوئی جن کے اخلاق يہ تھے،
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوريٰ۔ 37)
(ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حيائی کی باتوں سے پرہيز کرتے ہيں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر ديتے ہيں“۔
اور کچھ کا ذکر یوں تھا،
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (الشوريٰ۔ 38)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہيں اور نماز پڑھتے ہيں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہيں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمايا ہے اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔
وہ يہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : اے اللہ ميں اپنے حال سے واقف ہوں، ميں تو ان لوگوں ميں کہیں نظر نہيں آتا!
پھر انہوں نے ايک دوسرا راستہ ليا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال يہ تھا،
إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ o وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ (سورہ صافات۔ 35،36)
(ترجمہ) ”ان کا يہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئي معبود نہيں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ايک ديوانہ شاعر کے کہنے سے کہيں اپنے معبودوں کو چھوڑ دينے والے ہيں؟
پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت يہ تھی،
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر۔45)
(ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کيا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہيں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کيا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہيں“۔
کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گيا،
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ o قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ o وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ o وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ oوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ o حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (المدثر۔ 47-42)
(ترجمہ) ”کہ تم دوزخ ميں کيوں پڑے؟ وہ جواب ديں گے کہ ہم نماز نہيں پڑھتے تھے اور نہ فقيروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتيں بنانے والوں کے ساتھ باتيں بنايا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار ديتے تھے، يہاں تک کہ ہميں اس يقيني چيز سے سابقہ پيش آگيا“۔
يہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دير کے لئے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا: اے اللہ! ان لوگوں سے تيری پناہ! ميں ان لوگوں سےبری ہوں۔
اب وہ قرآن مجيد کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، يہاں تک کہ اس آيت پر جا کر ٹھہرے:
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبہ۔ 102)
(ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہيں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا ديا تھا قريب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔
اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! يہ بے شک ميرا حال ہے !!
تو ہم کن لوگوں میں سے ہیں..؟؟؟
سوچئے گا !!

Friday, 10 November 2017

🛑 مصیبت کے وقت دعا 🦋امام کاظم (علیه السلام) فرماتے ہیں











 مصیبت کے وقت دعا
曆امام کاظم (علیه السلام) فرماتے ہیں:
️مؤمن پر بلا اور مصیبت نہیں آتی ہے مگر یہ اللّہ تعالیٰ اس کو الھام کرتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرے؛ وہ مصیبت جلدی دور ہو جائے گی.
اگر دعا سے اجتناب کرتا ہے، تو وہ بلاء اور مصیبت طولانی ہو جاتی ہے. پس جب بھی فتنہ اور مصیبت آپ پر  آئے مھربان خدا کی بارگاہ میں دعا اور مناجات کریں.
الکافی، ج ۲، ص ۴۷۱
وسائل الشّیعه، ج ۷