Showing posts with label character. Show all posts
Showing posts with label character. Show all posts

Thursday, 25 January 2018

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!
🔺کچھ عرصہ قبل جسٹس سعید الزمان صدیقی کے ایک بیان پر کافی لے دے ہوئی، اور مذاق اڑایا گیا کہ باپ اور بیٹی کا ایک کمرے میں تنہا بیٹھنا اسلامی اعتبار سے درست نہیں،
جبکہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے. میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے معاشرے کا ہر باپ جنسی درندہ ہوتا ہے مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ جب کچھ ذہنی و جنسی بیمار مردوں پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے،
تب وہ باپ بھائی، چچا یا ماموں نہیں رہتے،

اورشیطان کے وار سے بلعم باعور جیسے بڑے بڑے عابد نہیں بچ سکے تو ہم کیا ہیں؟ میری خالہ کے گھر ایک غریب دائی صدقہ لینے آتی ہے.
ایک بار میری موجودگی میں وہ آئی، اور باتوں باتوں میں خالہ کو کوڈ ورڈز میں کہنے لگی کہ اس ماہ میں نے تین کیس "خراب" کیے، جن میں سے ایک باپ، دوسرا بھائی اور تیسرا ایک چچا کا تھا.

🔺یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے نو بالغ لڑکوں یا گھر کے مردوں میں ہیجان سب سے پہلے اپنے گھر کی مستورات کے نامناسب لباس دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.

🔺مائیں، بیٹیاں اور بہنیں گہرے گلے، آدھی آستینوں، اور چھوٹے چاکوں والی قمیضوں کے ساتھ چست پاجامے پہن کر بنا دوپٹے کے گھر میں پھریں گی تو شیطان کو اپنا وار کرنے کا بھر پور موقع ملے گا.

🌴اسی لیے اسلام نے عورت کو سینہ چھپانے اور اوڑھنی ڈالنے کا حکم دیا ہے.گھر کا ماحول ماں پاکیزہ بنائے گی تو اولاد حیا دار ہوگی. حیا اپنے ساتھ انوار و برکات لازما لاتی ہے ورنہ جو تربیت میڈیا ہمارے گھروں کی کر چکا ہے، اس کے یہی ثمرات اور نتائج دیکھنے کو ملیں گے.

🔺ایسے معاشرے میں جہاں شادی کی عمر 28، 30 سال ہو، وہاں 14 سال کا ایک نو عمر لڑکا گھر کی عورتوں کے حلیوں سے حظ کشید کرکے مشترکہ خاندانی نظام کا "فائدہ" کیونکر نہ اٹھائے گا.

🔺اس تحریر میں طبقہ اشرافیہ کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ
ان کے ہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے.
یہاں موضوع بحث لوئر یا مڈل کلاس دنیا دار گھر ہیں جن میں پرائیویسی کا تصور نہیں،
وہاں ایسے واقعات رونما ہوجا تے ہیں اور "ڈھانپ" دیے جاتے ہیں،
کیونکہ زنان خانہ اور مردان خانہ اب ہمارے نزدیک آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہے،

اور ایک یا دو کمروں میں رہائش پذیر خاندان پرائیویسی کے مفہوم سے بھی واقف نہیں. جدیدیت کی دوڑ میں حیا سے غفلت برت کر جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، ان کا سدباب نہ کیا گیا تو حالات مزید بھیانک ہوتے جائیں گے.

🛑 اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں:
بچیاں اور مائیں ساتر لباس استعمال کریں. فیشن کریں مگر ستر ڈھانپنے کے اہتمام کے ساتھ. فیشن صرف ہاف سلیوز، گہرے گلوں یا چست پاجاموں کا نام نہیں. 🛑

🌴حرمت مصاہرت کے مسائل بچیوں، بچوں اور باپوں کو ازبر ہونے چاہییں. 🌴

بچیاں بلوغت کے بعد والد کو نہ دبائیں نہ ہی کوئی اور جسمانی خدمت کریں یا لپٹیں. جسمانی خدمت بیٹے یا مائیں کریں اور اگر اشد ضرورت یا مجبوری ہو تو اس بارے میں گنجائش کی تفصیلات و مسائل کے لیے مفتیان کرام سے رجوع کریں.

📛بیٹیاں باپ کے ساتھ بیٹھ کر اکیلے یا سب کے ساتھ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں. اور مائیں بھی اپنے چودہ پندرہ سال کے بیٹوں سے جسمانی کنکشن یعنی گلے لگانے یا ساتھ لٹانے سے پرہیز کریں.

📛 باپ بیٹیوں کے کمرے میں دروازہ کھٹکھٹا کر آئیں یا دور سے کھنکھارتے ہوئے آئیں،
تاکہ بچیاں اپنا لباس درست کر لیں. یہی صورت ایک یا دو کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہو کر بھی اختیار کی جا سکتی ہے.

📛 باپ بچیوں کو سوتے سے مت جگائیں، اور یہ ذمہ داری والدہ سر انجام دے، کیونکہ سوتے میں لباس بےترتیب ہو سکتا ہے.

📛بھائیوں یا محرم رشتوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں ہاتھ مارنا، پیار میں گلے لگنا یا سلام کے لیے ہاتھ ملانا صرف ڈراموں فلموں کی حد تک ہی رہنے دیں.

ایک اسلامی معاشرے کے مکینوں کے لیے اس کی کوئی گنجائش نہیں.
مگر اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بہنوئیوں یا کزنز سے ہاتھ ملانا اور شادی بیاہ میں ان کے یا محرم رشتوں کے ساتھ ناچناگانا معیوب نہیں سمجھا جاتا، تبھی شیطان اپنے داؤ پیچ آزما لیتا ہے.

📛لاڈ میں چچاؤں کے گلے جھول جانا، ماموؤں سے بغل گیر ہونا، باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر انڈین ڈرامے دیکھنا جن کی کہانی ہی ناجائز معاشقوں سے شروع ہو کر ناجائز بچوں کے جنم سے آگے بڑھتی ہے، اور حمل و زچگی کے مناظر عام سی بات ہیں، ان سب سے بچیں.

🌷بچیوں کو سکھائیں کہ وہ خود کو جتنا ڈھانپ کر رکھیں گی اور ریزرو رہیں گی، اتنا ہی ان کے ایمان، قلب و چہرے کے نور میں اضافہ ہوگا اور کسی کو ان سے "چھیڑ چھاڑ" کی بھی جرات نہ ہوگی.

یاد رہے کہ یہ سب اقدامات حرف آخر نہیں، بلکہ احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اپنانے کے باوجود اگر کوئی محرم رشتہ جنسی درندہ بن جائے تو اس کا علاج سنگساری یا بندوق کی ایک گولی ہے تاکہ بقیہ درندوں کی حیوانیت کو لگام دی جا سکے.....⚠

Monday, 15 January 2018

حديث ثقلين کا مفہوم

حديث ثقلين کا مفہوم

چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار ديا ہے اور دونوں کو امت کے درميان حجت خدا قرار ديا ہے لہٰذا اس سے دو نتيجے نکلتے ہيں:

1- قرآن کي طرح عترت رسول (ص) کا کلام بھي حجت ہے اور تمام ديني امور خواہ وہ عقيدے سے متعلق ہوں يا فقہ سے متعلق ان سب ميں ضروري ہے کہ ان کے کلام سے

تمسک کيا جائے ،اور ان کي طرف سے دليل و رہنمائي مل جانے کے بعد ان سے روگرداني کر کے کسي اور کي طرف نہيں جانا چاہئے .

پيغمبر خدا (ص) کي وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سياسي امور کي رہبري کے مسئلہ ميں دو گروہوں ميں بٹ گئے اور ہر گروہ اپني بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دليل پيش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درميان اس مسئلہ ميں اختلاف ہے مگر اہل بيت کي علمي مرجعيت کے سلسلے ميں کوئي اختلاف نہيں کيا جاسکتا .

کيونکہ سارے مسلمان حديث ثقلين کے صحيح ہونے پر متفق ہيں اور يہ حديث عقائد اور احکام ميں قرآن اور عترت کو مرجع قرار ديتي ہے اگر امت اسلامي اس حديث پر عمل کرتي تو اس کے درميان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسيع ہوجاتا.

2- قرآن مجيد، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کي خطا اور غلطي سے محفوظ ہے يہ کيسے ممکن ہے کہ اس ميں خطا اور غلطي کا احتمال ديا جائے جبکہ خداوند کريم نے اس کي يوں توصيف کي ہے:

( لاٰيْتِيہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلاٰمِنْ خَلْفِہِ تَنزِيل مِنْ حَکِيمٍ حَمِيدٍ)

''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پيچھے سے اور يہ حکيم و حميد خدا کي طرف سے نازل ہوا ہے .''

اگر قرآن مجيد ہر قسم کي خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھي ہر قسم

کي خطا سے محفوظ ہيں کيونکہ يہ صحيح نہيں ہے کہ ايک يا کئي خطاکار افراد قرآن مجيد کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائيں- يہ حديث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کي لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہيں البتہ يہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہيں ہے کيونکہ ممکن ہے کہ کوئي معصوم ہو ليکن نبي نہ ہوجيسے حضرت مريم اس آيہء شريفہ :

(ِنَّ اï·²َ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَي نِسَائِ الْعَالَمِينَ)

(اے مريم !) خدا نے تمہيں چن ليا اور پاکيزہ بناديا ہے اور عالمين کي عورتوں ميں منتخب قرار ديا ہے -

کے مطابق گناہ سے تو پاک ہيں ليکن پيغمبر نہيں ہيں-

مجمع جہاني اہل بيت (ع)

Saturday, 13 January 2018

اولیاء الٰہی کی صفات

اولیاء الٰہی کی صفات


حدیث :

عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰہ ،من اولیاء اللّٰہ الذین لا خوف علیہم ولاہم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاہرہا،فاہتموا بآجلہا حین   اہتم الناس بعاجلہا،فآمتوا منہا ما خشوا ان یمیتہم ،وترکوا منہا ما علموا عن سیترکہم فما عرض لہم منہا عارض الا رفضوہ،ولا خادعہم من رفعتہا خادع الا وضعوہ،خلقت الدنیا عندہم فما یجددونہا،وحربت بینہم فما یعمرونہا،وما تت فی صدورہم فما یحبونہا،بل یہدمونہا فیبنون بہا آخرتہم ،ویبیعونہا فیشترون بہا ما یبقیٰ لہم ،نظروا الیٰ اہلہا سرعی قد حلت بہم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]



ترجمہ :

انس ابن مالک   نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم   ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا   وہ   دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو   بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ   تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔



حدیث کی شرح :

غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو   پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں <یعلمون ظاہراً من الحیاة الدنیا وہم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ <مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔



جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے <یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔



جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ   سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند   رہتاہے ۔






انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے   اچھے ہیں وہ   دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔



آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے   لوگ کتنی محنت کرتے   جبکہ   یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا،   بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔

یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :



1.      اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔

2.      وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں

3.      وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔



ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔



اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔



--------------------------------------------------------------------------------

[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱

[2] سورہ روم آیہ/ ۷

[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )

[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱

[5] سورہٴ بقرة

Tuesday, 26 December 2017

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرامین

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرامین

🌹من وعظ اخاہ سراً فقد زانه و من وعظ علانیة فقد شانه
جو اپنے مومن بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے وہ اس کی شان بلند کر دیتا ہے اور جو علانیہ نصیحت کرتا ہے وہ اس برادر مومن کو رسوا کر دیتا ہے ۔(تحف العقول،ص۵۲۰)
🌷ما اقبح بالمومن ان تکون له رغبة تذله
مومن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی خواہش کرے جو اس کے لئے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتی ہیں ۔(تحف العقول،ص۵۲۰)

💐اقل الناس راحة الحقود
کینہ رکھنے والے کو کبھی آرام نہیں ملتا ۔(تحف العقول،ص۵۱۸)

🌺لا یشغلک رزق مضمون عن عمل مفروض
رزق کا ضامن خدا ہے اس لئے تمھارا رزق تمھیں واجبات سے نہ روک دے ۔(تحف العقول عن آل الرسول،ص۵۱۹)

🥀التواضع نعمة لا تحسد علیه، تواضع ایسی نعمت ہے جس سے کوئی حسد نہیں کرتا۔(تحف العقول،ص۵۱۸)

🌼من الفواقر اللتی تقصم الظهر ،جارٍ اِن رای حسنة اخفاھا و اِن رای سیئة افشاه
انسان کے لئے ایک کمر شکن مصیبت وہ پڑوسی ہے جو اسکی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور اسکی برائیوں کو فاش کرتا ہے(بحارالانوار،ج۷۸،ص۳۷۲)

🌻جرأۃ الولد علیٰ والدہ فی صغرہ تدعوا الیٰ العقوق فی کبرہ
بچپن میں فرزند کی گستاخی بڑے ہو کر اس کے عاق ہونے کا سبب بنتی ہے ۔(بحارالانوار،ج۷۸،ص۳۷۴)

🍁لا تمار فیذھب بھاءک ولا تمازح فیجترء علیک
لڑائی جھگڑے سے انسان کا احترام ختم ہو جاتا ہے اور زیادہ مذاق کرنے سے انسان گستاخ ہو جاتا ہے ۔(بحارالانوار،ج۷۶،ص۵۹)
محتاج دعا ،،،،، ایس کاظمی 🌺

شب ولادت با سعادت گیارھویں تاجدار ولایت و امامت حضرت امام حسن  عسکری علیہ السلام بہت بہت مبارک ہو

Monday, 25 December 2017

مقصر کون ہے

مقصر کون ہے

امام باقر علیه السلام کے دور کے اھم فتنوں میں سے ایک غلو و تقصیر کا مسئلہ تھا۔ امام علیہ السلام نے شدت کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کیا نیز غلو و تقصیر کی حقیقیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ان کی حدوں کو بھی اشکار کیا
*تقصیر کسے کہتے ہیں اور مقصر کون ہے*؟ تقصیر یعنی ائمہ اثنا عشر علیھم السلام کی امامت کا قائل نہ ھونا، اور مقصر وہ ھے جو بارہ اماموں  کی امامت کو نہ مانتا ھو۔ اکثر روایتوں میں ائمہ علیھم السلام نے خاص کر امام باقر علیہ السلام نے بھی اس تعبیر کو استعمال کیا ہے: *’’المقصر فینا‘‘* یعنی ھماری امامت کو نہ ماننے والے۔ اگر کسی فقھی اختلاف کے تحت کوئی اثنا عشری شیعہ اگر کسی مسئلہ میں اختلاف رکھتا ھوتو اسے مقصر نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ وہ آئمہ کے فضائل، ان کی امامت اور ان کے مرتبہ کا قائل ھو اور ان کے دشمنوں سے اسی طرح بری ھو جس طرح ائمہ  نے فرمان دیا ھے۔
اسی طرح ایک شیعہ اثنا عشری ھونے کے لئے ضروری ھے کہ انسان اہل بیت علیھم السلام کی امامت پر اعتقاد اور ان سے محبت کے ساتھ ان کے دشمنوں سے برائت حاصل کرے۔ لھذا اگر کوئی اماموں کے دشمنوں سے خودکو بری نہ کرتا ھو تو وہ مقصر ھوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص آئمہ کے دشمنوں سے بری ھو لیکن برائت کے سلیقہ اور طریقہ میں اختلاف رکھتا ھو ایسے شخص کو مقصر کھنا غلط، ناجائز اور حرام ھوگا۔ 
لھذا تقصیر اور مقصر کا لفظ مخصوص ھے ان لوگوں سے جو آئمہ کی امامت کو نھیں مانتے ھیں۔ یہ لفظ کسی ایسے شخص کے لئے استعمال کرنا جو اھل بیت علیھم السلام کو امام بر حق مانتا ھو ناجائز، حرام اور اس شخص پر ظلم ھوگا۔ لھذا وہ لوگ جو شیعوں کومقصر کھتے ھیں وہ گناہ گار ھیں اور آئمہکی تعلیمات کے خلاف اپنے حلقہ میں فتنہ اور انتشار ایجاد کرکے دشمن کی سازشوں کو خواستہ یا نا خواستہ طور پر کامیاب بنا رھے۔
یاد رہے کہ جو شخص  مقام و منزلت معصومین کو جانتے بوجھتے ہوئے کم کرے وہ مقصر ہو گا
بس معلوم ہوا کہ قاصر اس حکم سے خارج ہے
قاصر وہ ہو گا جسکی بات سے ائمہ کا مقام ومنزلت کم ہو رہا ہو لیکن وہ بھولے سے یا نہ جانتے ہو ئے ایسا کر رہا ہو اگر اسکو متوجہ کیا جائے تو فورا اپنی غلطی کا ازالہ کرے۔۔۔

Monday, 18 December 2017

References about Hijab

ﭘﺮﺩﮮ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ
ﻣﮑﻤﻞ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻻﺯﻣﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮨﯿﮟ ﺷﮑﺮﯾﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ‏( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺩﻭﺯﺥ ﮐﯽ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﯽ ، ﺟﻮ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﮨﯿﮟ " ۔
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺣﺪﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٣٦ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺪﯾﺠﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺯﯾﻮﺭ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺩﮮ ﺩﺍﺭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﮕﯽ " ۔۔
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٨٨ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ‏( ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " : ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ،ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮ " ۔
‏( ﻋﺮﻭﺝ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺖ ﺟﻠﺪ ١ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ١٢٨ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺟﻨﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﻃﻤﮧ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ۔ "
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ٩٥ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ ‏( ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮯ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ ۔ "
ﺣﻮﺍﻟﮧ ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٧٣ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯽ ﺑﯽ ﮐﻠﺜﻮﻡ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ "
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٢٢ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ‏( ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﻮ ﺑﺎﻟﻎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ۔ "
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٨٩ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺟﺐ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺳﮑﯿﻨﮧ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻗﯿﺪﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ -:
" ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ‏( ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ‏) ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻭﮞ ﭘﮭﻮﭘﯽ ﺍﻣﺎﮞ؟؟؟؟ "
ﺣﻮﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ١٥١ ‏)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺑﯽ ﺑﯽ ﺯﯾﻨﺐ ‏( ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﺎ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " : ﺟﺐ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺐ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﮨﮯ " ۔
ﺡ ﻭﺍﻟﮧ -: ‏( ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺍﮬﻠﺒﯿﺖ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ ٥٩ ‏)

Wednesday, 13 December 2017

اپنے حجاب کی حفاظت کریں

امت مسلمہ كى تمام خواہران سے ميرى التماس ہے كہ اپنےحجاب كى حفاظت كريں ايسا نہ ہو كہ آپ لوگوں كےسر كا ايك بال بھى كسى نامحرم كى نظر ميں آجاۓ۔ ايسا مت كرنا كہ تمہارا چہرا نامحرم كى نظروں كو اپنى طرف راغب كرے ۔ اپنى چادر كى حفاظت كرو اور اپنے لئے حضرت زہرا سلام اللہ عليہا اور زنان اہلبيت علیھم السلام كو اسوہ قرار دو۔ اور بى بى رقيہ سلام اللہ عليہا كے بابا سے اس وعدے كو ياد كرو كہ بى بى سلام اللہ علیھا نے فرمايا :
اے بابا ! ميرے حجاب كى فكر مت كريں-
اے بابا جان ! اگرجہ ميرى چادر تھوڑى سى جل گئى ہے ليكن ابھى بھى ميرے سر پر ہے۔ 😢😢
اﻟﻠﻬﻢ ﻋﺠﻞ ﻟﻮﻟﯿﮏ ﺍﻟﻔﺮﺝ
ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺍﺟْﻌَﻠْﻨِﯽ ﻣِﻦْ ﺃَﻧْﺼَﺎﺭِﻩِ ﻭَ ﺃَﻋْﻮَﺍﻧِﻪِ ﻭَ ﺍﻟﺬَّﺍﺑِّﯿﻦَ ﻋَﻨْﻪُ ﻭَ
ﺍﻟْﻤُﺴَﺎﺭِﻋِﯿﻦَ ﺇِﻟَﯿﻪِ ﻓِﯽ ﻗَﻀَﺎﺀِ ﺣَﻮَﺍﺋِﺠِﻪِ ﻭَ ﺍﻟْﻤُﺤَﺎﻣِﯿﻦَ ﻋَﻨْﻪُ ﻭَ
ﺍﻟﺴَّﺎﺑِﻘِﯿﻦَ ﺇِﻟَﻰ ﺇِﺭَﺍﺩَﺗِﻪِ ﻭَ ﺍﻟْﻤُﺴْﺘَﺸْﻬَﺪِﯾﻦَ ﺑَﯿﻦَ ﯾﺪَﯾﻪ
ﺁﻣﯿﻦ
١٣٩۶ /۴ /٢٧
#کاپی

Tuesday, 12 December 2017

حضرت بہلولؒ اور ہارون رشید ۔

حضرت بہلولؒ اور ہارون رشید ۔

حضرت بہلولؒ اکثر قبرستان میں بیٹھے رہتے تھے ۔ایک دن ہارون کا اسی طرف سے گزر ہوا ۔حضرت بہلولؒ پر نگاہ پڑی۔

سواری پھیری اور بولا ۔اے بہلول دانا یہاں کیا کر رہے ہو ۔

حضرت بہلول نے فرمایا ۔میں ایسے لوگوں کی ملاقات کو آیا ہوں جو نا لوگوں کی غیبت کرتے ہو اور نا ان سے کؤئی امید یا توقع رکھتے ہیں اور نا کسی کو کوئی تکلیف دیتے ہیں

ہارون نے گہرا سانس لیا ۔بہلول کیا تم مجھے پل صراط سے گزرنے اور اس دنیا کے سوالوں جواب کی کچھ خبر دے سکتے ہو ۔

حضرت بہلولؒ فرمایا ہاں ہاں کیوں نہیں ۔اس  کےلیے لوگوں کو   تھوڑا سا احتمام (بندوبست )کرنا ہوگا ۔
ہارون رشید نے کہا ہاں ہاں تم بتاوں میں ابھی حکم دیتا ہوں ۔

حضرت بہلولؒ نے فرمایا ۔آپ اپنے سپاہیوں کو حکم دے کہ وہ یہاں آگ جلائے ۔اس پر ایک بڑا توا رکھے ۔اس توے کو گرم ہو کر سرخ ہو جانے دیں ۔
ہارون نے حکم جاری کیا ۔کہ بہلول کی فرمائش پوری کی جائے ۔ملازموں نے فوراً آگ جلائی توا لایا گیا اور گرم کرنے کے لیے آگ پر رکھا گیا ۔لوگوں کی نظریں اسی جانب تھی ۔یہاں تک کہ تو خوب گرم ہوگیا ۔

حضرت بہلول ؒ نے فرمایا ۔پہلے میں اس توے پر ننگے پاوں کھڑا ہوون گا اور اپنا تعرف کراوں گا۔یعنی میرا نام کیا ہے میری خوراک کیا ہے میرا لباس کیا ہے ۔اسی طرح تم توے پر کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروائیں گے ۔

ہارون رشید کو کچھ تعجّب ہوا لیکن اس نے قبول کرلیا ۔اور حضرت بہلول ؒ سے بولا چلو تم پہل کرو ۔
حضرت بہلولؒ تیزی سے توے پر کھڑے ہوگئے ۔یہاں تک کہ تعارف ہوگیا اور آگ توے سے نیچے اتر آئی ۔ان چند لمحوں میں حضرت بہلول ؒ کے پاوں کو کچھ بھی نا ہوا نا چھالے پڑے نا کو تکلیف ہوئی ۔
اب ہارون رشید کی باری آئی اور وہ توے پر چڑھا اور ابھی اپنے لب سے اپنا نام بھی نہیں بتایا تھا کہ اس کے پاوں جلنے لگے ۔گرتا ہوا توے سے نیچے اتر آیا ۔اور بولا اے بہلول تم نے مجھے کس عزاب میں ڈال دیا تھا ۔

حضرت بہلولؒ مسکراتے ہوئے فرمایا تم نے ہی تو فرمائش کی تھی کہ تمہیں قیامت کے دن کے سوالوں جوابات کے بارے میں بتایا جائے ۔تو پھر تم نے دیکھا گرم توے پر قدم رکھنا کتنا مشکل ہے اسی طرح جو خدا پرست ہیں دنیا کے جاہل کاموں سے دور ہیں لالچ تمہ نہیں رکھتے وہ لوگ پل صراط سے آرام سے گزر جائے گے ۔اور جو دنیاوی شان و شوقت میں ڈوبے ہوئے ہیں انہیں اسی طرح عزاب سے گزرنا ہوگا جیسے تم ابھی گزرے ۔

ہمارا کردار لطائف کے آئینے میں

ہمارا کردار لطائف کے آئینے میں

کہتے ہیں مسیحیوں کے زوال کے زمانے میں دو پادری اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ بائبل کی روشنی میں گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ ایک گنتی کچھ بتا رہا تھا اور دوسرا گنتی کچھ اور۔ قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے ان سے کہا اس معاملے میں بائبل کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت؟ گھوڑے کا منہ کھول کر اس کے دانت کیوں نہیں گنتی کرلیتے۔

(یہ لطیفہ ان دانشورں کے نام ہے جو اس بات پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے سیکولر یا اسلامی؟ حالانکہ یہ سوال انھیں پاکستان میں بسنے والے جیتے جاگتے 21 کروڑ عوام سے کرنا چاہیے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں)۔

ایک خرکار گدھوں پر بوجھ لاد کر کہیں جارہا تھا، اسے دور سے ڈاکو آتے دکھائی دیے۔ وہ پکارا بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ ڈاکو آرہے ہیں۔ گدھوں نے کہا کہ ہم کیوں بھاگیں؟ تو بھاگ۔۔۔! ہمیں تو بوجھ اٹھانا ہے وہ تیرا ہو یا کسی اور کا۔ (ابن انشا کی تحریر سے ماخوذ یہ پیراگراف میرے نزدیک ان سیاست دانوں کے لیے ہے جو اپنے مفادات کے لیے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں جب کہ عوام ہیں کہ ان کی اپیل پر اپنے کان دھرتے ہی نہیں ہیں)۔

ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے انتظام کرلیا ہے۔ خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔ (یہ لطیفہ ان معاشی پالیسیاں بنانے والے ماہرین کے نام ہے جو مہنگائی کے اسباب ختم کرنے کے بجائے تنخواہ میں اضافے کی بات کرتے ہیں جب کہ دنیا کے معاشی ماہرین کے مطابق تنخواہ میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔)

پولینڈ میں ایک بچے نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں، وہ سب کے سب کمیونسٹ ہیں۔ ٹیچر نے خوب شاباش دی۔ ہفتہ بھر بعد جب اسکول انسپکٹر معائنے کے لیے آئے تو ٹیچر نے بچے سے کہا کہ بلی والی بات پھر سے کہیے، بچے نے کہا ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں۔ ٹیچر نے بوکھلا کر کہا ہفتہ بھر پہلے تو تم نے اس طرح بات نہیں کی تھی، بچہ بولا جی ہاں مگر اب بلی کے بچوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ (سیاسی جماعتوں کے ان عہدیداروں کے نام جو پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں سابقہ پارٹی میں اس طرح کیڑے نکالتے ہیں جیسے پارٹی بدلتے ہی ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔)

لندن کی ایک بیکری کے کباب عموماً ملکہ کے لیے قصر بکنگھم میں جاتے تھے۔ دوستوں کے مشورے پر بیکری والے نے دکان پر ایک بڑے سائز کا بورڈ نصب کرایا جس پر تحریر تھا کہ ہمارے یہاں کے کباب ملکہ معظمہ بڑے شوق سے تناول فرماتی ہیں۔ قریب کے دوسرے بیکری والے کو اس کی یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی۔ اس نے فوراً دکان پر ایک بورڈ لگوایا جس پر تحریر تھا اے اللہ! ہماری ملکہ کی صحت کی حفاظت فرما۔ (اپوزیشن کی سیاست کا کردار ادا کرنے والے سیاستدانوں کے نام۔)

کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی، اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے ایک بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی نوٹ پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔ (دور حاضر کے تقاضوں سے لاعلم اور بے خبر علما کرام کے نام۔)

ایک شہری خاتون گاؤں میں عورتوں کو حساب سکھا رہی تھیں۔ اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس پچاس روپے ہوں اس میں سے تم بیس روپے اپنے شوہر کو دے دو تو بتاؤ تمہارے پاس کتنے روپے بچیں گے؟ عورت نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ خاتون نے دیہاتی عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ احمق عورت! تم حساب بالکل نہیں جانتی ہو۔ دیہاتی عورت نے جواب دیا۔ آپ بھی میرے شوہر ’’شیرو‘‘ کو نہیں جانتی ہو۔ وہ سارے روپے مجھ سے چھین لے گا۔

(یہ لطیفہ ان ماہرین کے نام جو پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔)

ایک مولوی صاحب کسی گاؤں پہنچے۔ انھیں تبلیغ کا شوق تھا۔ جمعہ کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ مولوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم واحد آدمی ہو جو مسجد آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ شخص بولا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بھی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔

(نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کے نام۔)

قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے۔ اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔

خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا ۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔ (پاکستان میں بسنے والے ان باشعور عوام کے نام جنھیں طرح طرح سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔)