نوجوان شاعر ندیم راجہ کا ایک خوبصورت کلام۔
۔
خطاب آنسو ، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
۔
خطاب آنسو ، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ترے توسط سے جو ملا ہے خوشی ہوئی ہے
پر اس خوشی میں رقیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
پر اس خوشی میں رقیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
یہ پڑھنے والے بھی فرق تھوڑا سا جان جائیں
ادب خوشی ہے ادیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ادب خوشی ہے ادیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
یہ تیرے جتنا قریب تیری سہیلیاں ہیں
ہمارے اتنا قریب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ہمارے اتنا قریب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
تمہارا دکھ ہے کہ آج تم سے ملا نہیں وہ
اِدھر ہمارا نصیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
اِدھر ہمارا نصیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
یہ دکھ محبت کا دکھ ہے اس میں علاج کیسا
دوائی دکھ ہے طبیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
دوائی دکھ ہے طبیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
مرے علاوہ فقط خدا کو پتہ ہے اِس کا
جو میرے دل میں حبیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
جو میرے دل میں حبیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment