Tuesday 20 February 2018

خطبہ فدک - حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا آتشیں خطاب

*خطبہ فدک - حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا آتشیں خطاب*



جى ہان مسجد جاؤں گى اور لوگوں كے سامنے تقرير كروں گي_

يہ خبر بجلى كى طرح مدينہ ميں پھيل گئي اور ايك بم كى طرح پورے شہر كو ہلاك ركھ ديا، فاطمہ (ع) جو كہ پيغمبر(ص) كى نشانى ہيں چاہتى ہيں كہ تقرير كريں؟ ليكن كس موضوع پر تقرير ہوگي؟ اور خليفہ اس پر كيا رد عمل ظاہر كرے گا؟ چليں آپ كى تاريخى تقرير كو سنيں_

مہاجر اور انصار كى جمعيت كا مسجد ميں ہجوم ہوگيا، بنى ہاشم كى عورتيں جناب زہراء (ع) كے گھر گئيں اور اسلام كى بزرگ خاتون كو گھر سے باہر لائيں، بنى ہاشم كى عورتيں آپ كو گھيرے ميں لئے ہوئے تھيں، بہت عظمت اور جلال كے ساتھ آپ چليں، پيغمبر(ص) كى طرح قدم اٹھا رہى تھيں، جب مسجد ميں داخل ہوئيں تو پردہ آپ كے سامنے لٹكا دياگيا، باپ كى جدائي اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) كو منقلب كرديا كہ آپ كے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دينے والى آواز نے مجمع پر بھى اثر كيا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑى دير كے لئے ساكت رہيں تا كہ لوگ آرام ميں آجائيں اس كے بعد آپ نے گفتگو شروع كي، اس كے بعد پھر ايك دفعہ لوگوں كے رونے كى آوازيں بلند ہوئيں آپ پھر خاموش ہوگئيں يہاں تك كہ لوگ اچھى طرح ساكت ہوگئے اس وقت آپ نے كلام كا آغاز كيا اور فرمايا:

ميں خدا كى نعمتوں پر اس كى ستائش کرتی ہوں اور اس كى توفيقات پر شكر ادا كرتى ہوں اس كى بے شمار نعمتوں پر اس كى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتيں جن كى كوئی انتہا نہيں اور ان كى تلافى اور تدارك نہیں كيا جاسكتا، ان كى انتہا كا تصور كرنا ممكن بھی نہيں، خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكريہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكرہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا كو طلب كيا ہے تا كہ وہ اپنى نعمتوں كو ہمارے لئے زيادہ كرے_ميں خدا كى توحيد اور يگانگى گواہى ديتى ہوں توحيد كا وہ كلمہ كہ اخلاص كو اس كى روح اور حقيقت قرار ديا گيا ہے اور دل ميں اس كى گواہى دے تا كہ اس سے نظر و فكر روشن ہو، وہ خدا كہ جس كو آنكھ كے ذريعے ديكھا نہيں جاسكتا اور زبان كے ذريعے اس كى وصف اور توصيف نہيں كى جاسكتى وہ كس طرح كا ہے يہ وہم نہيں آسكتا_ عالم كو عدم سے پيدا كيا ہے اور اس كے پيدا كرنے ميں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشيئت كے مطابق خلق كيا ہے_ جہان كے پيا كرنے ميں اسے اپنے كسى فائدے كے حاصل كرنے كا قصد نہ تھا_ جہان كو پيدا كيا تا كہ اپنى حكمت اور علم كو ثابت كرے اور اپنى اطاعت كى ياد دہانى كرے، اور اپنى قدرت كا اظہار كرے، اور بندوں كو عبادت كے لئے برانگيختہ كرے، اور اپنى دعوت كو وسعت دے، اپنى اطاعت كے لئے جزاء مقرر كى اور نافرمانى كے لئے سزا معين فرمائي_ تا كہ اپنے بندوں كو عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے_ميں گواہى ديتى ہوں كہ ميرے والد محمد(ص) اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہيں، پيغمبرى كے لئے بھيجنے سے پہلے اللہ نے ان كو چنا اور قبل اس كے كہ اسے پيدا كرے ان كا نام محمّد(ص) ركھا اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب اس وقت كيا جب كہ مخلوقات عالم غيب ميں پنہاں اور چھپى ہوئي تھى اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئي تھي، چونكہ اللہ تعالى ہر شئي كے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان كے مقدرات كے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) كو مبعوث كيا تا كہ اپنے امر كو آخر تك پہنچائے اور اپنے حكم كو جارى كردے، اور اپنے مقصد كو عملى قرار دے_ لوگ دين ميں تفرق تھے اور كفر و جہالت كى آگ ميں جل رہے تھے، بتوں كى پرستش كرتے تھے اور خداوند عالم كے دستورات كى طرف توجہ نہيں كرتے تھے_پس حضرت محمّد(ص) كے وجود مبارك سے تاريكياں چھٹ گئيں اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور ہوگئي، سرگردانى اور تحير كے پردے آنكھوں سے ہٹا ديئے گئے ميرے باپ لوگوں كى ہدايت كے لئے كھڑے ہوئے اور ان كو گمراہى سے نجات دلائي اور نابينا كو بينا كيا اور دين اسلام كى طرف راہنمائي فرمائي اور سيدھے راستے كى طرف دعوت دي، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پيغمبر كى مہربانى اور اس كے اختيار اور رغبت سے اس كى روح قبض فرمائي_ اب ميرے باپ اس دنيا كى سختيوں سے آرام ميں ہيں اور آخرت كے عالم ميں اللہ تعالى كے فرشتوں اور پروردگار كى رضايت كے ساتھ اللہ تعالى كے قرب ميں زندگى بسر كر رہے ہيں، امين اور وحى كے لئے چتے ہوئے پيغمبر پر درود ہو_آپ نے اس كے بعد مجمع كو خطاب كيا اور فرمايا لوگو تم اللہ تعالى كے امر اور نہى كے نمائندے اور نبوت كے دين اور علوم كے حامل تمہيں اپنے اوپر امين ہونا چاہيئےم ہو جن كو باقى اقوام تك دين كى تبليغ كرنى ہے تم ميں پيغمبر(ص) كا حقيقى جانشين موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پيمان اور چمكنے والانور ہے اس كى چشم بصيرت روش اور رتبے كے آرزومند ہيں اس كى پيروى كرنا انسان كو بہشت رضوان كى طرف ہدايت كرتا ہے اس كى باتوں كو سننا نجات كا سبب ہوتا ہے اس كے وجود كى بركت سے اللہ تعالى كے نورانى دلائل اور حجت كو دريافت كيا جاسكتا ہے اس كے وسيلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شريعت كے قوانين كو حاصل كيا جاسكتا ہے_اللہ تعالى نے ايمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسيلہ قرار ديا ہے___ اللہ نے نماز واجب كى تا كہ تكبر سے روكاجائے_ زكوة كو وسعت رزق اور تہذيب نفس كے لئے واجب قرار ديا_ روزے كو بندے كے اخلاص كے اثبات كے لئے واجب كيا_ حج كو واجب كرنے سے دين كى بنياد كو استوار كيا، عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزديكى كے لئے ضرورى قرار ديا، اہلبيت كى اطاعت كو ملت اسلامى كے نظم كے لئے واجب قرار ديا اور امامت كے ذريعے اختلاف و افتراق كا سد باب كيا_ امر بالمعروف كو عمومى مصلحت كے ماتحت واجب قرار ديا، ماں باپ كے ساتھ نيكى كو ان كے غضب سے مانع قرار ديا، اجل كے موخر ہونے اور نفوس كى زيادتى كے لئے صلہ رحمى كا دستور ديا_قتل نفس كو روكنے كے لئے قصاص كو واجب قرار ديا_ نذر كے پورا كرنے كو گناہوں گا آمرزش كا سبب بنايا_ پليدى سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائي، بہتان اور زنا كى نسبت دينے كى لغت سے روكا، چورى نہ كرنے كو پاكى اور عفت كا سبب بتايا_ اللہ تعالى كے ساتھ شرك، كو اخلاص كے ماتحت ممنوع قرار ديا_لوگو تقوى اور پرہيزگارى كو اپناؤ اور اسلام كى حفاظت كرو اور اللہ تعالى كے اوامر و نواحى كى اطاعت كرو، صرف علماء اور دانشمندى خدا سے ڈرتے ہيں_اس كے بعد آپ نے فرمايا، لوگو ميرے باپ محمد(ص) تھے اب ميں تمہيں ابتداء سے آخر تك كے واقعات اور امور سے آگاہ كرتى ہوں تمہيں علم ہونا چاہيئےہ ميں جھوٹ نہيں بولتى اور گناہ كا ارتكاب نہيں كرتي_لوگو اللہ تعالى نے تمہارے لئے پيغمبر(ص) جو تم ميں سے تھا بھيجا ہے تمہارى تكليف سے اسے تكليف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت كرتے تھے اور مومنين كے حق ميں مہربان اور دل سوز تھے_لوگو وہ پيغمبر ميرے باپ تھے نہ تمہارى عورت كے باپ، ميرے شوہر كے چچازاد بھائي تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائي، كتنى عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنى رسالت كو انجام ديا اور مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر سخت ضرب وارد كى ان كا گلا پكڑا اور دانائي اور نصيحت سے خدا كى طرف دعوت دي، بتوں كو توڑا اور ان كے سروں كو سرنگوں كيا كفار نے شكست كھائي اور شكست كھا كر بھاگے تاريكياں دور ہوگئيں اور حق واضح ہوگيا، دين كے رہبر كى زبان گويا ہوئي اور شياطين خاموش ہوگئے، نفاق كے پيروكار ہلاك ہوئے كفر اور اختلاف كے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبيت كى وجہ سے شہادت كا كلمہ جارى كيا، جب كہ تم دوزخ كے كنارے كھڑے تھے اور وہ ظالموں كا تر اور لذيذ لقمہ بن چكے تھے اور آگ كى تلاش كرنے والوں كے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل كے پاؤں كے نيچے ذليل تھے گندا پانى پيتے تھے اور حيوانات كے چمڑوں اور درختوں كے پتوں سے غذا كھاتے تھے دوسروں كے ہميشہ ذليل و خوار تھے اور اردگرد كے قبائل سے خوف و ہراس ميں زندگى بسر كرتے تھے_ان تمام بدبختيوں كے بعد خدا نے محمد(ص) كے وجود كى بركت سے تمہيں نجات دى حالانكہ ميرے باپ كو عربوں ميں سے بہادر اور عرب كے بھيڑيوں اور اہل كتاب كے سركشوں سے واسطہ تھا ليكن جتنا وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے خدا سے خاموش كرديتا تھا، جب كوئي شياطين ميں سے سر اٹھاتا يا مشركوں ميں سے كوئي بھى كھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائي على (ع) كو ان كے گلے ميں اتار ديتے اور حضرت على (ع) ان كے سر اور مغز كو اپنى طاقت سے پائمال كرديتے اور جب تك ان كى روشن كى ہوئي آگ كو اپنى تلوار سے خاموش نہ كرديتے جنگ كے ميدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ كى رضا كے لئے ان تمام سختيوں كا تحمل كرتے تھے اور خدا كى راہ ميں جہاد كرتے تھے، اللہ كے رسول كے نزديك تھے_ على (ع) خدا دوست تھے، ہميشہ جہاد كے لئے آمادہ تھے، وہ تبليغ اور جہاد كرتے تھے اور تم اس حالت ميں آرام اور خوشى ميں خوش و خرم زندگى گزار رہے تھے اور كسى خبر كے منتظر اور فرصت ميں رہتے تھے دشمن كے ساتھ لڑائي لڑنے سے ا جتناب كرتے تھے اور جنگ كے وقت فرار كرجاتے تھے_جب خدا نے اپنے پيغمبر كو دوسرے پيغمبروں كى جگہ كى طرف منتقل كيا تو تمہارے اندرونى كينے اور دوروئي ظاہر ہوگئي دين كا لباس كہنہ ہوگيا اور گمراہ لوگ باتيں كرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھايا اور باطل كا اونٹ آواز ديتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شيطان نے اپنا سركمين گاہ سے باہر نكالا اور تمہيں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغير سوچے اس كى دعوت قبول كرلى اور اس كا احترام كيا تمہيں اس نے ابھارا اور تم حركت ميں آگئے اس نے تمہيں غضبناك ہونے كا حكم ديا اور تم غضبناك ہوگئے_لوگو وہ اونٹ جو تم ميں سے نہيں تھا تم نے اسے با علامت بناكر اس جگہ بيٹھايا جو اس كى جگہ نہيں تھي، حالانكہ ابھى پيغمبر(ص) كى موت كو زيادہ وقت نہيں گزرا ہے ابھى تك ہمارے دل كے زخم بھرے نہيں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پيغمبر(ص) كو دفن بھى نہيں كيا تھا كہ تم نے فتنے كے خوف كے بہانے سے خلافت پر قبضہ كرليا، ليكن خبردار رہو كہ تم فتنے ميں داخل ہوچكے ہو اور دوزخ نے كافروں كا احاطہ كر ركھا ہے_ افسوس تمہيں كيا ہوگيا ہے اور كہاں چلے جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درميان موجود ہے اور اس كے احكام واضح اور اس كے اوامر و نواہى ظاہر ہيں تم نے قرآن كى مخالفت كى اور اسے پس پشت ڈال ديا، كيا تمہارا ارادہ ہے كہ قرآن سے اعراض اور روگرداني كرلو؟ يا قرآن كے علاوہ كسى اور ذريعے سے قضاوت اور فيصلے كرتا چاہتے تو؟ ليكن تم كو علم ہونا چاہيئے كہ جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے دين كو اختيار كرے گا وہ قبول نہيں كيا جائے گا اور آخرت ميں وہ خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہوگا، اتنا صبر بھى نہ كرسكے كہ وہ فتنے كى آگ كو خاموش كرے اور اس كى قيادت آسان ہوجائے بلكہ آگ كو تم نے روشن كيا اور شيطان كى دعوت كو قبول كرليا اور دين كے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) كے خاموش كرنے ميں مشغول ہوگئے ہو_ كام كو الٹا ظاہر كرتے ہو اور پيغمبر(ص) كے اہلبيت كے ساتھ مكر و فريب كرتے ہو، تمہارے كام اس چھرى كے زخم اور نيزے كے زخم كى مانند ہيں جو پيٹ كے اندر واقع ہوئے ہوں_كيا تم يہ عقيدہ ركھتے ہو كہ ہم پيغمبر(ص) سے ميراث نہيں لے سكتے، كيا تم جاہليت كے قوانين كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانين سے بہتر ہيں، كيا تمہيں علم نہيں كہ ميں رسول خدا(ص) كى بيٹى ہوں كيوں نہيں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح يہ روشن ہے_ مسلمانوں كيا يہ درست ہے كہ ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبكر آيا خدا كى كتاب ميں تو لكھا ہے كہ تم اپنے باپ سے ميراث لو اور ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم رہوں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں كہتا كہ سليمان داود كے وارث ہوئے_''ورث سليمان داؤد''كيا قرآن ميں يحيى عليہ السلام كا قول نقل نہيں ہوا كہ خدا سے انہوں نے عرض كى پروردگار مجھے فرزند عنايت فرما تا كہ وہ ميرا وارث قرار پائے او آل يعقوب كا بھى وارث ہو_كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں كے وارث ہوتے ہيں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ اللہ نے حكم ديا كہ لڑكے، لڑكيوں سے دوگنا ارث ليں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ تم پر مقرر كرديا كہ جب تمہارا كوئي موت كے نزديك ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصيت كرے كيونكہ پرہيزگاروں كے لئے ايسا كرنا عدالت كا مقتضى ہے_كيا تم گمان كرتے ہو كہ ميں باپ سے نسبت نہيں ركھتي؟ كيا ارث والى آيات تمہارے لئے مخصوص ہيں اور ميرے والد ان سے خارج ہيں يا اس دليل سے مجھے ميراث سے محروم كرتے ہو جو دو مذہب كے ايك دوسرے سے ميراث نہيں لے سكتے؟ كيا ميں اور ميرا باپ ايك دين پر نہ تھے؟ آيا تم ميرے باپ اور ميرے چچازاد على (ع) سے قرآن كو بہتر سمجھتے ہو؟اے ابوبكر فدك اور خلافت تسليم شدہ تمہيں مبارك ہو، ليكن قيامت كے دن تم سے ملاقات كروں گى كہ جب حكم اور قضاوت كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہوگا اور محمد(ص) بہترين پيشوا ہيں_اے قحافہ كے بيٹھے، ميرا تيرے ساتھ وعدہ قيامت كا دن ہے كہ جس دن بيہودہ لوگوں كا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشيمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالى كے عذاب كو ديكھ لوگے آپ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا:اے ملت كے مددگار جوانو اور اسلام كى مدد كرنے والو كيوں حق كے ثابت كرنے ميں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت ميں ہو؟ كيا ميرے والد نے نہيں فرمايا كہ كسى كا احترام اس كى اولاد ميں بھى محفوظ ہوتا ہے يعنى اس كے احترام كى وجہ سے اس كى اولاد كا احترام كيا كرو؟ كتنا جلدى فتنہ برپا كيا ہے تم نے؟ اور كتنى جلدى ہوى اور ہوس ميں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم كے ہٹانے ميں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت ركھتے ہو اور ميرے مدعا اور خواستہ كے برلانے پر طاقت ركھتے ہو_ كيا كہتے ہو كہ محمد(ص) مرگئے؟ جى ہاں ليكن يہ ايك بہت بڑى مصيبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زيادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) كى غيبت سے زمين تاريك ہوگئي ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہيں آپ كى مصيبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہيں، اميديں ٹوٹ گئيں، پہاڑ متزلزل اور ريزہ ريزہ ہوگئے ہيں پيغمبر(ص) كے احترام كى رعايت نہيں كى گئي، قسم خدا كى يہ ايك بہت بڑى مصيبت تھى كہ جس كى مثال ابھى تگ ديكھى نہيں گئي اللہ كى كتاب جو صبح اور شام كو پڑھى جا رہى ہے آپ كى اس مصيبت كى خبر ديتى ہے كہ پيغمبر(ص) بھى عام لوگوں كى طرح مريں گے، قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے كہ محمد(ص) بھى گزشتہ پيغمبروں كى طرح ہيں، اگر آپ(ص) مرے يا قتل كئے گئے تو تم دين سے پھر جاوگے، جو بھى دين سے خارج ہوگا وہ اللہ پر كوئي نقصان وارد نہيں كرتا خدا شكر ادا كرنے والوں كو جزا عنايت كرتا ہے (1)_اے فرزندان قبلہ: آيا يہ مناسب ہے كہ ميں باپ كى ميراث سے محروم رہوں جب كہ تم يہ ديكھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور يہاں موجود ہو ميرى پكار تم تك پہنچ چكى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زيادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، ميرے استغاثہ كى آواز تم تك پہنچتى ہے ليكن تم اس پر لبيك نہيں كہتے ميرى فرياد كو سنتے ہو ليكن ميرى فرياد رسى نہيں كرتے تم بہادرى ميں معروف اور نيكى اور خير سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ كى اولاد ہو تم ہم اہلبيت كے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں كے ساتھ تم نے جنگيں كيں سختيوں كو برداشت كيا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائي كى ہے جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ہم حكم ديتے تھے تم اطاعت كرتے تھے اسلام نے رونق پائي اور غنائم زيادہ ہوئے اور مشركين تسليم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگيا اور دين كا نظام مستحكم ہوگيا_اے انصار متحير ہوكر كہاں جارہے ہو؟ حقائق كے معلوم ہو جانے كے بعد انہيں كيوں چھپانے ہو؟ كيوں ايمان لے آنے كے بعد مشرك ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں كا جنہوں نے اپنے ايمان اور عہد اور پيمان كو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ كيا ہو كہ رسول خدا(ص) كو شہر _ بدر كريں اور ان سے جنگ كا آغاز كريں كيا منافقين سے ڈرتے ہو؟ حالانكہ تمہيں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہيئے تھا_ لوگو ميں گويا ديكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ ميں بيٹھ كر عيش اور نوش ميں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد كے وسيع ميدان سے قرار كر كے راحت طلبى كے چھوٹے محيط ميں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كرديا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل ديا ہے ليكن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمين كے لوگ كافر ہوجائيں تو خدا تمہارا محتاج نہيں ہے_اے لوگو جو كچھ مجھے كہنا چاہيئے تھا ميں نے كہہ ديا ہے حالانكہ ميں جانتى ہوں كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہيں، ليكن كيا كروں دل ميں ايك درد تھا كہ جس كو ميں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كرديا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدك اور خلافت كو خوب مضبوطى سے پكڑے ركھو ليكن تمہيں يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ اس ميں مشكلات اور دشوارياں موجود ہيں اور اس كا ننگ و عار ہميشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى كا خشم اور غصہ اس پر مزيد ہوگا اور اس كى جزا جہنم كى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے كردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج ديكھ ليں گے_ لوگو ميں تمہارے اس نبى كى بيٹى ہوں كہ جو تمہيں اللہ كے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام ليں گے تم بھى انتظار كرو ہم بھى منتظر ہيں(2)_1) سورہ آل عمران_2) احتجاج طبرسي، طبع نجف 1386 ھ ج 1 131_141 _ شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 211_ كتاب بلاغات النسائ، تاليف احمد بن طاہر، متولد 204 ہجرى ص 12_ كشف الغمہ، ج 2 ص 106_

Monday 5 February 2018

انتظار فرج

انتظار فرج

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہاگر میں قائم(عج) کے زمانے میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت میں گزار دیتا۔

اسلام میں مہم ترین عبادت انتظار فرج ہے،حضرت علی علیہ السلام   پیغمبر خدا (ص) سے  روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا:«أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ»۔(1)
ترجمہ:افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے۔
امام زمانہ(عج) گذشتہ تمام امتوں کے موعود ہیں، آپ کے ظہور  سے زمین عدالت سے پر ہو جائے گی، چنانچہ آپ حضرات ہمیشہ مفاتیح الجنان میں پڑھتے ہیں:
«السّلامُ علی المَهدیِّ الذّی وَعَدَ اللهُ عزَّوجلَّ بِهِ الأمَمَ، أن یَجمَعَ به الکَلِمَ و یَلُمُّ به الشَّعَثَ و یَملأَ بِهِ الأرضَ قِسطَاً و عَدلاً و یُمکِّنَ لَهُ و یُنجِزَ بِهِ وعدَ المُؤمنِینَ»۔(2)
ترجمہ:سلام ہو مهدی پر، کہ جن کا  خداوند متعال نے  سب امتوں کو  وعده  دیا ہے تاکہ لوگوں کو اس طرح سے جمع کریں کہ ان میں کسی قسم کا تفرقہ نہ ہو اور انھیں کے وسیلہ سے زمین پر عدل قائم ہوگا، اور خداوند عالم حضرت کو یہ قدرت عطا فرمائے گا،اور اللہ کا یہ وعدہ مؤمنین کی عزت کے لیے پورا ہو کر رہے گا۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو بھی اپنے امام (عج) کے انتظار میں اس دنیا سے چل بسے  وہ ایسے ہی جیسے وہ اپنے امام کے ساتھ ان کےخیمہ میں ہے اس کے بعد کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا:بلکہ وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے خود امام(عج) کی رکاب میں رہ کر جنگ کی ہو،اس کے بعد ارشاد فرمایا:«لا وَالله إلاّ کمَن إستَشَهدَ مع رسولِ اللهِ»بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اجر کا مستحق ہے گویا وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو رسول اللہ (ص) کے رکاب میں شہید ہوا ہو۔(3)
امام صادق(ع) سے سوال ہوا کہ کیا قائم پیدا ہو چکے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں اگر میں قائم(عج) کے زمانے میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت میں گزار دیتا۔(4)
نتیجہ:انتظار فرج تمام عبادتوں میں سے افضل عبادت ہے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہ اپنے امام کے ظہور کے لیے دعا کرے اور مہم تو یہ ہے کہ انسان کا ہر لمحہ اپنے امام کے لیے ہونا چاہیے ،انسان ذرا سوچے کہ میں جو کام بھی کر رہا ہوں کیا  میرے  مولا اس سے راضی بھی ہیں یا نہیں۔
......................................................................................................................................................................................
حوالہ جات:
۱۔محمد بن بابویه قمی،شیخ صدوق،کمال الدین و تمام النعمه، قم، دارالکتب الاسلامیه، 1395، چاپ دوم، ج1، ص287۔
۲۔قمی، شیخ عباس؛ مفاتیح الجنان، مهدی الهی قمشه ای،قم، ارم، 1382، ص1029۔
۳۔قمی، شیخ عباس، نگاهی به زندگانی چهارده معصوم، محمد محمدی اشتهاردی، قم، ناصر، 1372، ص577۔
۴۔مجلسی، محمدباقر،بحارالانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، 1404ہجری، ج‏51، 148، باب

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...