Saturday 18 April 2020

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا. 
تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری. 
ایک بار ضرور پڑھے.  
نوٹ.  
فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے گزریں جو  عظیم الھی فلسفی ملا صدر الدین شیرازی جو نہ شیعت بلکہ عالم اسلام کا سرمایہ اور عظیم سپوت تھے جن کے فلسفے کی بنیاد ہی نہج البلاغہ پر تھی اور جو تمام فلسفیوں میں سب سے زیادہ قرآن حدیث سے آگاہ تھے اور توسل اہلبیت جن کی خصوصیت تھی، ان کی شخصیت کے خلاف کی گئیں تھیں  اس لے اس عظیم الھی فلسفی شارح اصول کافی اور مفسر قران اور عالم نہج البلاغہ عظیم عرفانی شخصیت کے مختصر حالات پر پوسٹ کر رہے ہیں تاکہ لوگ حقیقت حال سے اگاہی حاصل کرسکیں.  ہمیں کسی کی تنقیص مقصود نہیں ہر آدمی اپنا نظریہ قائم کرنے میں ازاد ہے .میں اس الھی فلسفی کے لئے حق دفاع استعمال کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے چند پہلو بہت اختصار سے عرض کر رہا ہوں   

 ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا عظیم الھی و شیعی فلسفی 1571ء میں شیراز میں پیدا ہوئے.   آپ مکتبِ حکمتِ متعالیہ کے بانی تھے.  دنیاشیعت میں ان سے عظیم تر فلسفی پیدا نہیں ہوا.  نہ صرف تشیعُ بلکہ عالم اسلام اس عظیم فلسفی پر فخر کرتا ہے.  یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شیعوں کے بجائے اہل سنت نے ملاصدرا کے فلسفے کا ترجمہ کیا ان مترجم میں مولانا مودودی بھی شامل ہیں اور حیدر آباد دکن میں اہل سنت کے جامعات میں ملا صدرا کی شُہرہ آفاق کتاب الاسفا الاربعہ کو نصاب میں شامل کیا گیا. اس سے پہلے میں نے اپنی سابقہ چند پوسٹ میں جن اہل عرفان کا ذکر کیا وہ سب بزرگان فلسفیانہ طور پر ملا صدرا کے مکتب حکمت متعالیہ سے وابستہ تھے اور عرفان میں ان بزرگان کا سلسلہ آغاء سید علی شوشستری اور پھر آقاء محمد علی جولا سے ملتا ہے.  ملا صدرا نے افلاطون،  ارسطو،  ابن عربی،  ابن سینا،  فلسفہ الاشراق اور فلسفہ مشائین کا گہرائ سے مطلعہ کیا.  آپ نے فلسفے کے کئ پیچیدہ مسائل جو اکثر بزرگ فلسفیوں سے حل نہیں ہوسکے تھے بڑی کامیابی سے حل کر لیا.  اور آپ نے حکمت متعالیہ کی بنیاد رکھی اور تقریباً 400 سال سے آپ کا فلسفہ unquestionable ہے. ملا صدرا نے فقہاء اور فلسفیوں میں جو اختلاف تھے انہیں بڑی کامیابی سے حل کرکے فقہاء اور فلسفیوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دین اسلام کی عظیم خدمت کی.  ملا صدرا تمام مسلمان فلسفیوں میں قرآن و احادیث اور تفسیر سے زیادہ آگاہی رکھتے تھے اور توسل اہلبیت اَنکا خصوصی افتخار تھا.  انہوں نے سات حج پا پیادہ انجام دئے.  ملا صدرا نے شیعہ سنی احادیث کے علاوہ نہج البلاغہ سے بھر پور استفادہ کیا.  ملا صدرا کی تالیفات شدت سے عرفانی روش سے متائثر ہیں.  حکمت متعالیہ کی یہ خصوصیات اور امتیاز ہے کہ وہ کشف و شہود کے پیاسوں کو بھی سیراب کرتی ہے اور بحث و استدلال کے شائقین کو بھی علم و یقین تک پہنچاتی ہے.  آپ نے اصول کافی کی شرح بھی لکھی اور مختلف سورہ ہائے قران کی تفسیر بھی لکھی.  آپ نے 50 کے قریب مختلف کتب تصنیف کیں مگر سب سے اہم شُہرہ آفاق کتاب جو حکمتِ متعالیہ کی اساس ہے وہ ہے   " الاسفار الاربعہ" یعنی نفسِ انسانی کے چار سفر.  یہ کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد کا اردو ترجمہ مولوی سید مناظر احسن گیلانی اور دوسری جلد کا ترجمہ مولانا مودودی نے کیا.  ملا صدرا نے سب سے پہلے حرکتِ جوہریہ کا نظریہ دیا ( اقاء خمینی رح کی کتاب معاد کی بنیاد اسی نظریہ حرکتِ جوہریہ پر ہے جو انتہائ گہرے مطالب پر مبنی ہے  جسے سمجھنے کے لئے میں نے اس ضخیم کتاب کا 12 مرتبہ مطالعہ کیا تب جا کر 50 یا 60 % تک سمجھنے کے قابل ہوا. ) 
اس الھی فلسفی کو اپنے دَور میں بہت سے لوگوں کا جن میں کئ با اثر اہل علم بھی تھے کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مولا علی ع کا فرمان ہے  کہ جب لوگ کسی شے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اُسکے دشمن ہوجاتے ہیں.  ملا صدرا حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہویے کہ قم کے قریب ایک کٹک نامی چھوٹے سے گاؤں میں گوشہ نشین ہوگئے اور 12 سال گوشہ نشینی میں گزار دئے مگر اُس گوشہ نشینی کو اللہ کی طرف سے ایک عنایت سمجھا اور بقول ملا صدرا اس گوشہ نشینی اور تنہائ میں میں نے  مخلوق سے رخ پھیر کر اپنا رخ اپنے رب کی طرف کرلیا اور پھرغور فکر کی ایسی منزلیں طے کیں کہ انوار الھی کے دروازے مجھ پر کھل گئے اور کائنات کے عظیم راز مجھ پر منکشف ہوئے. اور میری روح ایک نورانی کیفیت کے ساتھ چمک اُٹھی ملا صدرا نے اپنی گوشہ نشنی کو مولا علی ع کی گوشہ نشینی کے دوران آپ کے مشہور فرمان سے نسبت دی جس میں مولا علی ع نے فرمایا  . 
 " میں سوچتا تھا کہ اپنے کٹے ہویے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس مصیبت پر صبر کروں جو بڑے کو بوڑھا اور بچے کو پیران سالی تک پہنچا دیتی ہے اور مومن صبر کرکے اپنے رب تک پہنچ جاتا ہے  " 
ملا صدرا فرماتے ہیں کہ میں نے مولا علی ع کی سیرت پر عمل کیا اور اپنی راہ پر صبر و سکون سے قائم رہا.
اس تنہای اور گوشہ نشینی میں اللہ نے مجھے مبدا و معاد کے چہرے سے پردہ کشائ کی توفیق دی جس سے یہ عظیم کتاب الاسفار وجود میں آئ اور اس کتاب کی حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جو اپنے مادی بدن کو شریعی ریاضتوں سے تھکا چکا ہو.  اس کتاب میں ملا صدرا نے نفس کے چار سفروں کا ذکر کیا جو یہ ہیں :
1:  پہلا سفر.      سیر من الخلق الی الحق
2:  دوسرا سفر.  سیربالحق فی الحق
3:  تیسرا سفر.  سیر من الحق الی الخلق. 
4:  چوتھا سفر.  سیرفی الخلق بالحق
 ایران میں یہ کتاب آغا جوادی آملی اور آغا حسن زادہ آملی ہی پڑھ رہے ہیں اور آعا حسن زادہ عاملی نے اس کی شرح بھی لکھی ہے اور پاکستان میں شاید ہی کوئ اسکے پڑھانے کی پوزیشن میں ہو سواے استاد جواد نقوی کے مگر میری معلومات کے مطابق یہ پاکستان میں کہیں بھی نہیں پڑھائ جارہی شاید اس کے لئے کوئ استاد میسر نہیں .
12 سال کی تنہائ اور گوشہ نشینی کے بعد حوزہ قم کے کچھ اہل علم کو حقیقت کا احساس ہوا آپ کی طرف متوجہ ہوے اور آپ کو اَس گاؤں سے قم لاے اور حوزے میں آپ نے درس دینا شروع کیا تو متلاشیان حق کی کثیر تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئ.  
جیسے ابتداء میں میں نے عرض کیا تھا کہ ملا صدرا نے سات پا پیادہ حج کیے اور ساتویں حج کے سفر کے دوران 1641ء میں بصرا میں آپ علیل ہوے جس کے نتیجے میں اس الھی فلسفی کی زندگی کا سفر، سفرِ حج میں مکمل ہوگیا.  آپ کے جسد خاکی کو بصرا سے نجف اشرف لایا گیا اور نجف اشرف میں مسجد علی میں آپ کو دفن کیا گیا.  
اسی الھی فلاسفی کو دنیا سے گزرے تقریباً چار سو سال ہوگئے مگر آج تک آپ کے علم فلسفہ کے نظریات چیلنج نہیں کیے جاسکے اور متلاشیان حق کے لئے آج بھی چراغِ  راہ ہیں.  آپ کے بعد آپکے عظیم شاگرد اور صاحب تفسیر صافی ملا فیض کاشانی نے آپ کی راہ کو جاری رکھا.  علامہ مجلسی جو اگرچہ فلسفی نہیں بلکہ عظیم محدث  تھے ملا فیض کاشانی کے شاگردوں میں شامل تھے.  
مذہب تشیعُ کی قابل قدر اورعرفانی و فلسفی ہستیاں مثلاً آقاء جوادی آملی،  آقاء حسن زادہ عاملی،  آقاء مصباح یزدی،  آقاء بہجت،  آقاء علامہ محمد حسین طباطبائ صاحب تفسیر المیزان،  اقاء سید علی قاضی،  اقاء خمینی،  اقاء شہید مطاہری،  آقاء جواد ملکی تبریزی،  آقاء محمد علی شاہ آبادی،  آقاء سید احمد کربلائ،  اقاء بہاری اور اقاء سید علی شوشستری یہ بزگوار مشرب حکمت متعالیہ ملاصدرا کے پروردہ تھے جن میں پہلے تین بزرگوار الحمد اللہ با حیات ہیں خدا وند عالم ان کا سایہ ملت پر قائم رکھے. 
سرکار آیت اللّہ علامہ الشیخ محمد حسین نجفی قبلہ جو متکلم ہونے کے ناطے اگرچہ اہل فلسفہ سے اختلاف رکھتے ہیں مگر اپنی کتابوں میں ملا صدرا رح کا بہت احترام سے ذکر فرمایا ہے۔
شعبہ نشر و اشاعت مرکزی جامع مسجد امام الصادق ع پارس وادئ کاغان

Saturday 11 April 2020

امام زمان (عج) کے غائب ہونے کے بارے میں صحیح (معتبر) شیعہ روایات

کیا امام زمان (عج) کے نظروں سے غائب ہونے کے باوجود بھی انکے وجود کا کوئی فائدہ ہے ؟..!!

قسط دوم..!

4-  اہل زمین پر آسمان و زمین کی برکات کا نزول:

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائد عامہ میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ زمین والوں پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے، زمین اپنی برکات ظاہر کرتی ہے جیسا کہ امام فرماتے ہیں: وبنا ینزّل الغیث وتنشر الرحمۃ وتخرج برکات الأرض،

ہمارے سبب باران رحمت نازل ہوتی ہے، رحمت خدا پھیلتی ہے اور زمین سے برکات ظاہر ہوتی ہیں۔

کمال الدین، شیخ صدوق ج 1ص 207

أمالی، شیخ صدوق ص 186، المجلس الرابع والثلاثون۔

زمین و آسمان کی برکات کا مسئلہ ایک قرآنی اصول ہے کیونکہ خداوند نے فرمایا:

وَلَوْ أَنَّ أَھْلَ الْقُرٰی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنَاھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ،

اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور پرہیزگار بنتے تو ہم ضرور ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کو انکے اعمال کی بناء پر پکڑ لیا۔

سورہ اعراف آیت 96

اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چونکہ سابقہ امتوں نے تقوی سے منہ موڑا، حق کا انکار اور اہل حق کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں خداوند نے انہیں عذاب میں مبتلا کردیا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس امت پر باران رحمت نازل ہوتی ہے، زمین سے اس کی برکات ظاہر ہوتی ہیں اور اہل زمین اس سے استفادہ کرتے ہیں، یہ سب کچھ ممکن نہیں مگر صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کے وجود کے صدقہ میں، کیونکہ وہی زمین میں تقوی و پرہیزگاری کا مکمل مظہر ہیں۔

 

وجودِ امامِ مہدی (عج) کے فوائد خاصہ:

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک میں فوائد عامہ کے علاوہ کچھ فوائد خاصہ بھی موجود ہیں البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ فوائد عامہ ہر مخلوق کو مل رہے ہیں، چاہے کوئی ان فوائد کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، نیز یہ فوائد ہر مخلوق کو ملتے رہیں گے، چاہے کوئی امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کو مانے یا انکار کرے، لیکن امام کے وجود کے فوائد خاصہ عام طور پر صرف انہیں افراد کے ساتھ مخصوص ہیں جو امام پر صحیح عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ (ع) کے ساتھ معنوی رابطہ رکھتے اور توسل کرتے ہوں۔

1- جاہلیت کی موت سے نجات:

اہل سنت کی معتبر کتب میں امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث مختلف الفاظ میں موجود ہے کہ آپ نے فرمایا:

من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ،

جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی (امام) کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب 13

سنن کبری، ترمذی ج 8 ص 156

فتح الباری، ابن حجر ج 13 ص 5

دوسری روایت کے مطابق آپ (ص) نے فرمایا:

من مات بغیر امام مات میتۃ جاہلیۃ،

جو کوئی امام (کی معرفت) کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

مسند، أحمد ابن حنبل ج 4 ص 96

مجمع الزوائد، ھیثمی ج 5 ص 218

ایک اور روایت کے مطابق آپ (ص) نے فرمایا:

من مات ولیس علیہ امام مات میتۃ جاہلیۃ،

جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

مجمع الزوائد، ھیثمی ج 5 ص 218

ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ :

موجودہ دور میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر اہل سنت کے لیے امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ امام حق کی بیعت کا فرض ادا کر سکیں کہ جس کے نتیجہ میں انکی موت جاہلیت کی موت نہ رہے گی۔

2- مؤمنین کی مشکل کشائی :

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اور خاص فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے ماننے والوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں۔ تاریخ تشیع میں علماء و مومنین کے بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کی مشکلات حل فرمائیں ہیں۔

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی ایک توقیع (خط) میں شیعوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّا غَیْرُ مُھْمِلِیْنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ، وَلَا نَاسِیْنَ لَذِکْرِکُم، وَلَولَا ذٰلِکَ لَنَزَلَ بِکُمْ اْللَّاوٰاءُ وَاصْطَلَمَکُمْ اْلأَعْدَاءُ فَاتَّقُوْا االلّٰہَ جَلَّ جَلاٰلُہُ،

ہم تمہاری دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں فراموش کیا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر مصیبتیں آ پڑتیں اور دشمن، تمہیں تباہ و برباد کر دیتے پس تم تقویٰ الہی اختیار کرو۔

بحار الانوار، علامہ مجلسی ج 53 ص 175

الاحتجاج، طبرسی ص 596

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ان محبت آمیز جملات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے ذریعہ ہمیشہ غیبی امداد شیعوں تک پہنچ رہی ہے اور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے محبین و معتقدین بھی اپنی فردی و اجتماعی مشکلات و پریشانیوں میں کبھی اپنے امام سے غافل نہیں ہوئے بلکہ شیعت کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے زمانے کے امام کو حلّال مشکلات اور محرم اسرارِ خلقت سمجھتے ہوئے، اُن سے متوسل ہوئے ہیں جس کے بارے میں بہت سے واقعات کتبِ تاریخ میں مذکور ہیں مثلا:

بحرین کے حاکم اور انار کا واقعہ  جس میں امام زمان نے بحرین ہی کے ایک مومن محمد ابن عیسی کے ذریعہ وہاں کے مومنین کی مدد فرمائی،

یا اسی قسم کے اور بہت سے واقعات امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے متعلق کتب میں مذکور ہیں کہ جن میں آپ نے اپنے ماننے والوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی فرمائی ہے۔

منتھی الآمال (اردو ترجمہ احسن المقال) ج 2 ص 440

النجم الثاقب ص 314

بحار الانوار، علامہ مجلسی ج 52 ص 178

3- نامحسوس روحانی نفوذ اور معنوی ہدایت:

ہر آسمانی و الہی رہبر چاہے وہ نبی ہو یا امام، کا سب سے اہم کام لوگوں کی ہدایت کرنا ہے، چنانچہ خداوند تعالی نے فرمایا:

وَجَعَلْنَاھُمْ اَئِمَّۃً یَھْدُوْنَ بِأَمْرِنَا،

سورہ انبیاء آیت 73

لہذا ہر نبی اور امام اپنی پوری زندگی اس ہدایت کے فریضہ کو ادا کرتا ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ہدایت کے فریضہ کی ادائیگی کیلئے بھی ہادی کا لوگوں کی آنکھوں کے سامنے مسلسل ہونا ضروری نہیں ہے، اگرچہ عام طور پر ہدایت کا فریضہ، درس و گفتار اور عادی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ادا ہوتا ہے، لیکن نبی یا امام کے پاس لوگوں کی ہدایت کا ایک روحانی و معنوی طریقہ بھی ہے کہ جو دل و فکر میں معنوی نفوذ کے ذریعہ انجام پذیر ہوتا ہے کہ جسے اصطلاح میں ہدایت و تربیت تکوینی کا نام دیا جا سکتا ہے، اس طریقہ ہدایت میں الفاظ و کلمات اور درس و گفتار مؤثر نہیں ہوتے بلکہ نبی یا امام کی صرف روحانی کشش مؤثر ہوتی ہے۔

بہت سے الہی رہبروں کے حالات میں ملتا ہے کہ بعض اوقات نہایت منحرف و غلط  افراد صرف ایک مختصر سی ملاقات کے ذریعہ بدل گئے اور فورا راہ راست پر آ گئے، بے ایمانی و گناہوں سے تائب ہو کر مؤمن و فداکار بن گئے اور اسی چیز کو شخصیت کے نفوذ یا اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

خانہ کعبہ کے پہلو میں بت پرست اسعد ابن زرارہ کی پیغمبر اکرم (ص) سے مختصر ملاقات اور اس کا مسلمان ہونا،

کربلا کے راستے میں امام حسین (ع) کے پیغام کا زھیر پر اثر، کہ اُس نے اپنے ہاتھ کا لقمہ بھی منہ میں رکھنا گوارا نہ کیا اور فورا امام کی طرف چل پڑا،

نیز امام حسین (ع) کی حرُ ابن یزید ریاحی سے ملاقات اور اُس کا یزیدی لشکر کو چھوڑ کر امام حسین (ع) کے لشکر میں شامل ہو جانا،

حضرت امام موسی کاظم (ع) کو دیکھ کر ہارون کی طرف سے امام کے زندان میں بھیجی گئی فاحشہ عورت کا بدل جانا

یا بشر حافی اور امام موسی کاظم (ع) کا واقعہ وغیرہ...

یہ تمام واقعات معصومین (ع) کے نامحسوس روحانی نفوذ و اثر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اسی طرح غیبت کے پردے میں امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا بھی ایک اثر یہی ہے کہ آپ مومنین کے دلوں کی زرخیز زمین کو اپنی روحانی شخصیت کے نفوذ کے بیج سے آباد کرتے ہیں جس سے آپ کے ماننے والوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔

4- امام مہدی (عج) کی غیبت کا مومنین کیلئے باعث برکت ہونا:

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے سبب مومنین کیلئے عظیم اجر و ثواب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور ایسا بہت سا عظیم ثواب جس کا حصول انتہائی با مشقت اعمال کے بغیر ممکن نہ تھا، امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کی وجہ سے مومنین کو مل رہا ہے اور روایات میں اس عظیم ثواب کا کثرت کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) سے روایت ہے :

أفضل العبادۃ الصبر والصَمت، وانتظار الفرج،

بہترین عبادت صبر کرنا، فضول باتوں سے پرہیز اور امام مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار کرنا ہے۔

بحار الانوار، علامہ مجلسی ج 74 ص 422

پس غیبت کے زمانے میں امام کے ظہور میں تعجیل کیلئے دعا کرنے والے ، غیبت میں مصائب و مشکلات پر صبر کرتے ہوئے امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم رہنے اور ظہور کے بعد آپ کی نصرت کے خواہاں مومنین، خداوند کی طرف سے ثواب عظیم حاصل کرتے ہیں۔

اہل سنت اور حدیث امان:

وہ بعض احادیث کہ جو امامت و مرجیعت دینی اور عصمت اہلبیت (ع) پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک مشہور حدیث، حدیث امان بھی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اہل بیت کو امت کے لیے امان قرار دیا ہے تا کہ ان کی امت اختلاف سے دور رہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر امت مسلمہ رسول اسلام کے بعد اہل بیت کے بتائے ہوئے راستے پر عمل پیرا ہو جائے اور ان کی اقتداء کر لیں تو اختلاف سے بچے رہیں گے اور ہدایت تک پہنچ جائیں گے۔

حدیث امان کو اہل سنت کے علماء میں سے ایک جماعت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ، ان کی بعض عبارتیں اس طرح سے ہیں:

1- حاکم نیشاپوری نے صحیح سند کے ساتھ رسول اسلام (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

النجوم امان لاھل الارض من الغرق واھل بیتی امان لامتی من الاختلاف ، فاذا خالفھا قبیلۃ من العرب اختلفو ا فصاروا حزب من ابلیس،

ستارے اہل زمین کے لیے امان ہیں تا کہ وہ غرق نہ ہو اسی طرح میرے اہلبیت میری امت کے لیے امان ہیں تا کہ ان میں اختلاف نہ ہونے پائے اگر عرب میں سے کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرے گا تو ان میں خود اختلاف ہو جائے گا اور وہ شیطان کے گروہ میں سے ہو گا۔

مستدرک حاکم ،ج 3 ص 149

2- ابن حجر مکیّ و سیوطی نے بھی اس حدیث کو اِسی مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے۔

الصواعق المحرقہ ، ص 150

احیا المیتّ ،ج 35 ص 345

3- ابن حجر نے پیغمبر اسلام (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

۔۔۔ واھل بیتی امان لآمتی من الاختلاف فاذا خالفتھا قبیلۃ من العرب اختلفوا فصارو حزب ابلیس،

میرے اہل بیت وسیلہ امان ہیں میری اُمت کے لیے تا کہ وہ اختلاف میں نہ پڑیں اگر عرب میں سے کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرے گا تو ان میں خود اختلاف ہو جائے گا اور وہ شیطان کے گروہ میں سے ہو گا۔

4- ابو یعلی موصلی نے اپنی کتاب مسند میں سند حسن کے ساتھ رسول اسلام (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

النجوم امان لآھل السماء واھل بیتی امان لاُمتی،

جس طرح سے ستارے اہل آسمان کے لیے وسیلہ امان ہیں اِسی طرح میرے اہلبیت اہل زمین کے لیے وسیلہ امان ہیں۔

منتخب کنز العمال ، ج 5 ص 92

الجامع الصغیر ، ج 2 ص 189

ذخائر العقبی ، ص 17

یہ حدیث اِسی طرح دوسرے مضمون سے بھی جو کہ قریب المعنی ہے، نقل ہوئی ہے۔

علی اصغر رضوانی ، امام شناسی و پاسخ بہ شبہات ج 2 ص 415

اہل بیت اطہار (ع) کی اتباع کیوں واجب ہے ؟

حدیث سفینہ:

پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اہل بیت (ع) کے بارے میں ارشاد فرمایا:

انما مثل اھلبیتی فیکم کسفینة نوح من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق ،

میرے اہل بیت کی مثال تمہارے درمیان نوح کی کشتی جیسی ہے کہ جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی اختیار کی وہ غرق ہو گیا۔

المستدرک علٰی الصحیحین، ج 3 ص 151

اور اسی طرح، ج 2 ص 343

اہل بیت (ع) کو کشتی نوح سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصول دین و فروع دین میں اہل بیت (ع) کے علم سے ہدایت حاصل کریں اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیں، ورنہ وہ مذاہب و نظریات کے اختلاف میں گر کر ڈوب جائیں گے اور ان کی نجات ممکن نہیں ہو گی۔

ابن حجر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے:

اہل بیت (ع) کو کشتی نوح سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو شخص بھی خداوند کے حضور اس شکرانے کے طور پر کہ اس نے اہل بیت (ع) کو عظمت و فضیلت عطا کی، اہل بیت (ع) سے محبت کرے ان کی عظمت کا قائل ہو اور ان کے علماء سے ہدایت حاصل کرے تو وہ مخالفتوں کی تاریکی سے نجات پا جائے گا، اور جو شخص ان سے منہ موڑے گا تو وہ کفران نعمت کے دریا میں غرق ہو جائے گا اور گمراہی کے  بھنور میں پھنس کر ہلاک ہو جائے گا۔

صواعق محرقہ،ص 91 ،باب 11 ،تفسیر آیت 7

حدیث امان:

ایک دوسری حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اہل بیت (ع) کو آسمان کے ستاروں سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

النجوم امان لاھل الارض من الغرق واھل بیتی امان لامتی من الاختلاف فاذا خالفتھا قبیلة من العرب اختلفوا فصاروا حزب ابلیس،

ستارے زمین والوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت (ع) میری  امت کو اختلاف سے بچاتے ہیں لہٰذا اگر عرب کا کوئی بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرے گا تو وہ شیطانی گروہ بن جائے گا۔

المستدرک علٰی الصحیحین،ج 3 ص 149

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاکم نیشاپوری نے یہ کہا ہے کہ:

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے، لیکن بخاری و مسلم نے اسے اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا۔

ستاروں کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اس کا تذکرہ خود قرآن مجید میں بھی ہے چنانچہ ارشاد ہوا ہے:

و بالنجم ھم یھتدون،

اور ستاروں سے وہ لوگ ہدایت پاتے ہیں۔

سورہ نحل آیت 16

مذکورہ احادیث کے علاوہ جن دوسری احادیث میں اہل بیت (ع) کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیا گیا ہے، وہ اہل بیت (ع) کی علمی اور شرعی قیادت و رہبری پر واضح انداز سے دلالت کرتی ہیں اور ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور سنت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اہل بیت (ع) کا قول و فعل ہی اصول دین و فروع دین کی شناخت کا واحد سر چشمہ اور اہم ذریعہ ہے۔

ﻋﻦ ﺍﺑﻲ ﺣﻤﺰﺓ ﺍﻟﺜﻤﺎﻟﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻲ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ‏( ﻉ ‏) ﻗﺎﻝ : ﻗﻠﺖ ﻟﻪ ﺍﺗﺒﻘﻲ ﺍﻻﺭﺽ ﺑﻐﻴﺮ ﺍﻣﺎﻡ ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻮ ﺑﻘﯿﺖ ﺍﻷﺭﺽ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺳﺎﻋﺔ ﻟﺴﺎﺧﺖ.

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق (ع) سے پوچا کہ: کیا زمین امام کے وجود کے بغیر باقی رہ سکتی ہے ؟ امام نے فرمایا: اگر زمین ایک لمحہ بھی امام کے وجود کے سے خالی ہو تو تباہ ہو جائے گی۔

‏ﮐﻤﺎﻝ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﻭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻟﻨﻌﻤﻪ ﺹ 308

بعض جاہل وہابی اور اہل سنت سوال کرتے ہیں کہ وہ امام جو غائب ہو، اسکے وجود کا امت اسلامی کے لیے کیا فائدہ ہے ؟

امام صادق (ع) نے اپنے والد گرامی کے ذریعے سے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ: ہم اہل بیت آئمہ مسلمین اور تمام مخوقات پر حجت خدا ہیں، ہم اہل زمین کے لیے پناہ گاہ ہیں، جسطرح کہ ستارے اہل آسمان کے لیے پنا گاہ ہیں۔ ہماری وجہ سے آسمان زمین پر گرنے سے محفوظ ہے، مگر یہ کہ اس کام کے لیے خداوند کا حکم ہو۔ ہمارے وجود کی برکت سے بارش برستی ہے اور ہماری وجہ سے خداوند اپنی تمام مخلوقات پر اپنی رحمت کو نازل کرتا ہے اور ہماری وجہ سے زمین اپنی برکات کو بندوں کے لیے خارج کرتی ہے اور اگر ہم اہل بیت کا کوئی فرد بھی زمین پر موجود نہ ہو تو زمین اپنی تمام مخلوقات کو نگل لے گی۔ پھر فرمایا: خداوند نے جب سے حضرت آدم کو خلق کیا ہے، زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا، چاہے وہ حجت خدا زمین پر ظاہر ہو یا ظاہری طور پر نظروں سے غائب ہو۔ اسکے بعد بھی قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی اور اگر ایسا نہ ہو تو لوگ خداوند کی عبادت نہیں کری‍ں گے۔

سلیمان راوی کہتا ہے کہ لوگ کسطرح حجت غائب سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ؟

امام نے فرمایا: اس طرح کہ جسطرح لوگ بادلوں کے پیچھے موجود سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

بحار الأنوار، العلامة المجلسي ج : 23 ص 5- ح10

 یہی مطلب اہل سنت کی کتب میں بھی ذکر ہوا ہے:

ابن حجر عسقلانی نے کتاب صحیح بخاری کی شرح کتاب فتح البارى میں لکھا ہے کہ انبیاء میں سے چند نبی زندہ اور غائب ہیں کہ جو اہل زمین کے باعث امن و امان ہیں:

أربعة من الأنبیاء أحیاء أمان لأهل الأرض اثنان فی الأرض الخضر والیاس واثنبن فی السماء إدریس وعیسى،

انبیاء میں سے چار نبی زندہ ہیں اور اہل زمین کے لیے امان ہیں، ان میں سے دو زمین پر ہیں: حضرت خضر اور حضرت الیاس، اور دو آسمان پر ہیں: حضرت ادریس اور حضرت عیسی۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 6 ، ص 434، تحقیق: محب الدین الخطیب،

الكتب  - صحيح البخاري - كتاب أحاديث الأنبياء - باب حديث الخضر مع موسى عليهما السلام- الجزء رقم6

سیوطی در الدرالمنثور ج4ص239

زمخشری در ربیع الابرار ج1 ص 397

امام قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ:

عن عمر بن دینار قال: ان الخضر، و الیاس حیّین فى الارض، ما دام القرآن على الارض، فاذا رفع ماتا،

حضرت خضر و الیاس زمین پر زندہ ہیں کہ جب تک قرآن زمین پر ہے، اور جب بھی قرآن زمین سے اٹھ جائے گا، وہ دونوں (خضر و الیاس) مر جائیں گے۔

تفسیر قرطبی ج13 ص361 موسسه الرساله

وہابیوں سے سوال: حضرت خضر، الیاس، ادریس اور حضرت عیسی (ع) زندہ ہیں، وہ کدہر ہیں اور انکے وجود کا کیا فائدہ ہے۔ تمہارے ہی علماء نے ذکر کیا ہے کہ ان انبیاء کے با برکت وجود سے اہل زمین سے بلائیں اور مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ جسطرح قرآن باعث ہدایت ہے، اسی طرح انکا غائب وجود بھی لوگوں کے لیے باعث ہدایت ہے۔

تم وہابیوں اور اہل سنت نے جو جواب ان غائب انبیاء کے بارے میں دیا، ہم شیعہ بھی تم کو امام زمان غا‏ئب کے بارے میں وہی جواب دیں گے !!!

امام زمان (عج) کے با برکت وجود کا فائدہ :

1- سبب دفع بلا،

2- سبب ہدایت عوام الناس، (مثل قرآن کریم)

بعد والا سوال یہ ہے کہ تم وہابی اور اہل سنت بتاؤ کہ ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، یزید وغیرہ جب زندہ اور زمین پر موجود تھے، ان کا لوگوں اور اسلام کے لیے کیا فائدہ تھا ؟

کیا ان لوگوں کا فائدہ فقط قرآن، نماز، وضو، حج وغیرہ کو تحریف اور تبدیل کرنا تھا ؟ ان لوگوں نے اسلام اور مسلمین میں ایسے فتنے اور فساد برپا کیے ہیں کہ جو رہتی دنیا تک باقی رہیں گے اور جن کا خاتمہ خود حضرت مہدی (عج) آ کر کریں گے۔

تم وہابی اور اہل سنت کس منہ سے ہم شیعوں سے امام مہدی (عج) کے با برکت وجود کے فوائد کے بارے میں سوال کرتے ہو !؟

اسکے علاوہ خود تمہارے علماء نے اعتراف کیا ہے کہ حضرت مہدی (ع) ابوبکر، عمر اور حتی بعض انبیاء سے برتر اور زمین پر خداوند کے بہترین خلیفہ ہیں:

ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

أبو أسامة عن عوف، عن محمد، قال: يكون في هذه الأمة خليفة لا يفضل عليه أبو بكر ولا عمر،

محمد ابن سيرين کہتا ہے کہ اس امت میں ایسا خلیفہ آئے گا کہ جو ابوبکر اور عمر پر بھی برتری رکھتا ہو گا۔

مصنف ابن أبي شيبة، ج 7 ، ص 513 ، ح 37650

سیوطی نے بھی کتاب العرف الوری فی اخبار المهدی ص118

پر اسی روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ روی زمین پر بہترین خلیفہ کہ جو حتی ابوبکر و عمر سے افضل ہو گا، موجود ہو گا۔۔۔۔

اقوال حضرت امام زمان علیہ السلام:

قال الامام المھدی علیہ السلام : انا یحیط علمنا با نبائکم ، ولا یعزب عنا شئی من اخبارکم ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہارے سارے حالات ہمارے علم میں ہیں اور تمہاری کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔

بحار الانوار ج 53 ص 175

قال الامام المھدی علیہ السلام:  اکثر و الدعا بتعجیل الفرج فان ذالک فرجکم ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: تعجیل ظہور کے لیے زیادہ سے زیادہ دعا کیا کرو،  اس لیے کہ یہ دعا خود تمہارے لیے ہی خوشحالی کا باعث بنے گی۔

بحار الانوار ج 52 ص 92

قال الامام المھدی علیہ السلام:  انا خاتم الاوصیاء و بی یدفع اللہ البلاء عن اھلی و شیعتی ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں سلسلہٴ اوصیاء کی آخری کڑی ہوں۔ خداوند عالم میرے وسیلے سے میرے اہل اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔

بحار الانوار ج 52 ص 93

قال الامام المھدی علیہ السلام:  ان الارض لا تخلوا من حجة اما ظاھرا و اما مغمورا ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی ، وہ حجت یا ظاہر ہوتی ہے یا پوشیدہ۔

کمال الدین صدوق ج 2 ص 511

قال الامام المھدی علیہ السلام:  کلما غاب علم بدا علم ، و اذا افل نجم طلع نجم ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: جب کسی علم پر پردہ پڑ جاتا ہے تو دوسرا علم ظاہر ہو جاتا ہے اور جب کوئی ستارہ غروب ہو جاتا ہے تو دوسرا اسکی جگہ طلوع ہو جاتا ہے۔

احتجاج طبرسی ج 2 ص 490

قال الامام المھدی علیہ السلام:  انّی امان لاھل الارض کما ان النجوم امان لاھل السماء ،

حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اہل زمین کے لیے اسی طرح سبب راحت و امان ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لیے باعث امان ہیں۔

بحار الانوار ج 78 ص 380

التماس دعا۔۔۔۔۔!!!

Wednesday 4 March 2020

امام باقرج فرماتے ہیں

امام باقرج فرماتے ہیں
اے جابر ضرورت کے وقت ھمارے دشمن سے مدد نہ لینا،نہ ہی اس سے کھانا مانگنا،اور اس سے کوئی سوال بھی نہ کرنا حتی کہ ایک گھونٹ پانی کا بھی،کیونکہ جب وہ جھنم میں ہو گا تو مومن اس کے پاس سے گذرے گا تو وہ کہے گا ،اے مومن میں نے تمھارا فلاں فلاں (کام )کیا تھا ،تو مومن اس کی بات سن کر شرمسار ہو گا اور اسے جھنم سے نجات  دلوائے گا، اور مومن کو مومن اسی وجہ سے کہا گیا ہے،کیونکہ وہ اللہ سے کسی کے لیے امان(شفاعت) طلب کرے گا تو اللہ اس کی امان کو قبول کرے گا
المحاسن ج1 ص 185

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...