Thursday 10 May 2018

امام مہدی علیہ السلام مثل یوسف ع

امام زمانہ(عج) کی حضرت یوسف(ع) سےمشابہت کی وجوہات

  امام باقرعلیہ السلام نے اپنی ایک حدیث میں حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ مشابہت کی اس طرح وضاحت فرمائی ہےکہ حضرت یوسف کے بھائی ان کے ساتھ معاملہ کرتے رہے اوران سے باتیں کرتے رہےلیکن انہیں پہچان نہ سکے۔

   تعالیٰ سورہ مبارکہ یوسف کی آیت نمبر۵۸ میں فرماتا ہے: (وَ جاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ) اور برادران یوسف(مصر) آئے اوریوسف کے ہاں حاضرہوئے پس یوسف نے انہیں پہچان لیا اوروہ یوسف کو پہچان نہیں رہےتھے۔

نکات :

محمد بن مسلم کہتےہیں: میں امام باقرعلیہ السلام کی خدمت پہنچا اورقائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں سوال کرنا چاہا لیکن امام علیہ السلام نے میرے سوال کرنے سے پہلے ہی فرمایا: اے محمد بن مسلم قائم آل محمد علیہم السلام میں پانچ انبیاکی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن ان کی یوسف بن یعقوب علیہما السلام کےساتھ مشابہت یہ ہے کہ وہ ہرخاص اورعام افراد سےغائب تھے اوراپنے بھائیوں سےمخفی تھے اوران کے والد پربھی ان کا مسئلہ پوشیدہ تھا اگرچہ اسکے اوراس کے والدین اورچاہنے والوں کے درمیان فاصلہ کم تھا۔(۱)

امام زمانہ علیہ السلام ہمیں پہچانتے ہیں لیکن ہم انہیں نہیں پہچانتے۔ جب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ظہورکریں گے تو بعض لوگ کہیں گےکہ میں نےانہیں پہلے کہیں دیکھا ہے«فَعَرَفَهُم وَ هُم لَه مُنکِرون» یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا تھا لیکن بھائی انہیں نہیں پہچان سکے تھے۔ امام باقرعلیہ السلام اپنی ایک حدیث میں حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ مشابہت کی اس طرح وضاحت فرمائی ہےکہ حضرت یوسف کے بھائی ان کے ساتھ معاملہ کرتےرہے اوران سے باتیں کرتے رہےلیکن انہیں پہچان نہ سکے۔(۲)

امام باقرعلیہ السلام کےفرمان کے مطابق امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف خوبصورتی اورسخاوت میں حضرت یوسف علیہ السلام کےمشابہ ہیں۔(۳)

مآخذ :

۱- کمال الدین و تمام النعمه، ج۱، ص ۳۲۷؛

۲- دلائل الامامه، ص ۵۳۲؛

۳۔ اثبات الوصیه، ص ۲۶۷.

محسن قرائتی کی کتاب(پرتوی از آیہ ھای مہدی) سےاقتباس

۷۰۳۷۸۶

Saturday 21 April 2018

سرکار وفا ع

جلال حیدرؑ کے وارث، حضرت ام البنینؑ کے لال
حضرت عباس علمدارؑ کی میلاد مسعود آپ سب کو مبارک ہو۔

حضرت امام علی علیہ السلام کے یہ الفاظ آپ کو ہدیہ کر رہا ہوں:
اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ۔    آج عمل کا دن ہے حساب نہیں ہے۔
وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلَ  اور کل اللہ حساب لے گا عمل کا وقت گزر جائے گا۔   (میزان الحکمۃ جلد۱ ص ۴۱)

Tuesday 20 February 2018

خطبہ فدک - حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا آتشیں خطاب

*خطبہ فدک - حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا آتشیں خطاب*



جى ہان مسجد جاؤں گى اور لوگوں كے سامنے تقرير كروں گي_

يہ خبر بجلى كى طرح مدينہ ميں پھيل گئي اور ايك بم كى طرح پورے شہر كو ہلاك ركھ ديا، فاطمہ (ع) جو كہ پيغمبر(ص) كى نشانى ہيں چاہتى ہيں كہ تقرير كريں؟ ليكن كس موضوع پر تقرير ہوگي؟ اور خليفہ اس پر كيا رد عمل ظاہر كرے گا؟ چليں آپ كى تاريخى تقرير كو سنيں_

مہاجر اور انصار كى جمعيت كا مسجد ميں ہجوم ہوگيا، بنى ہاشم كى عورتيں جناب زہراء (ع) كے گھر گئيں اور اسلام كى بزرگ خاتون كو گھر سے باہر لائيں، بنى ہاشم كى عورتيں آپ كو گھيرے ميں لئے ہوئے تھيں، بہت عظمت اور جلال كے ساتھ آپ چليں، پيغمبر(ص) كى طرح قدم اٹھا رہى تھيں، جب مسجد ميں داخل ہوئيں تو پردہ آپ كے سامنے لٹكا دياگيا، باپ كى جدائي اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) كو منقلب كرديا كہ آپ كے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دينے والى آواز نے مجمع پر بھى اثر كيا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑى دير كے لئے ساكت رہيں تا كہ لوگ آرام ميں آجائيں اس كے بعد آپ نے گفتگو شروع كي، اس كے بعد پھر ايك دفعہ لوگوں كے رونے كى آوازيں بلند ہوئيں آپ پھر خاموش ہوگئيں يہاں تك كہ لوگ اچھى طرح ساكت ہوگئے اس وقت آپ نے كلام كا آغاز كيا اور فرمايا:

ميں خدا كى نعمتوں پر اس كى ستائش کرتی ہوں اور اس كى توفيقات پر شكر ادا كرتى ہوں اس كى بے شمار نعمتوں پر اس كى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتيں جن كى كوئی انتہا نہيں اور ان كى تلافى اور تدارك نہیں كيا جاسكتا، ان كى انتہا كا تصور كرنا ممكن بھی نہيں، خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكريہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكرہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا كو طلب كيا ہے تا كہ وہ اپنى نعمتوں كو ہمارے لئے زيادہ كرے_ميں خدا كى توحيد اور يگانگى گواہى ديتى ہوں توحيد كا وہ كلمہ كہ اخلاص كو اس كى روح اور حقيقت قرار ديا گيا ہے اور دل ميں اس كى گواہى دے تا كہ اس سے نظر و فكر روشن ہو، وہ خدا كہ جس كو آنكھ كے ذريعے ديكھا نہيں جاسكتا اور زبان كے ذريعے اس كى وصف اور توصيف نہيں كى جاسكتى وہ كس طرح كا ہے يہ وہم نہيں آسكتا_ عالم كو عدم سے پيدا كيا ہے اور اس كے پيدا كرنے ميں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشيئت كے مطابق خلق كيا ہے_ جہان كے پيا كرنے ميں اسے اپنے كسى فائدے كے حاصل كرنے كا قصد نہ تھا_ جہان كو پيدا كيا تا كہ اپنى حكمت اور علم كو ثابت كرے اور اپنى اطاعت كى ياد دہانى كرے، اور اپنى قدرت كا اظہار كرے، اور بندوں كو عبادت كے لئے برانگيختہ كرے، اور اپنى دعوت كو وسعت دے، اپنى اطاعت كے لئے جزاء مقرر كى اور نافرمانى كے لئے سزا معين فرمائي_ تا كہ اپنے بندوں كو عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے_ميں گواہى ديتى ہوں كہ ميرے والد محمد(ص) اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہيں، پيغمبرى كے لئے بھيجنے سے پہلے اللہ نے ان كو چنا اور قبل اس كے كہ اسے پيدا كرے ان كا نام محمّد(ص) ركھا اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب اس وقت كيا جب كہ مخلوقات عالم غيب ميں پنہاں اور چھپى ہوئي تھى اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئي تھي، چونكہ اللہ تعالى ہر شئي كے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان كے مقدرات كے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) كو مبعوث كيا تا كہ اپنے امر كو آخر تك پہنچائے اور اپنے حكم كو جارى كردے، اور اپنے مقصد كو عملى قرار دے_ لوگ دين ميں تفرق تھے اور كفر و جہالت كى آگ ميں جل رہے تھے، بتوں كى پرستش كرتے تھے اور خداوند عالم كے دستورات كى طرف توجہ نہيں كرتے تھے_پس حضرت محمّد(ص) كے وجود مبارك سے تاريكياں چھٹ گئيں اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور ہوگئي، سرگردانى اور تحير كے پردے آنكھوں سے ہٹا ديئے گئے ميرے باپ لوگوں كى ہدايت كے لئے كھڑے ہوئے اور ان كو گمراہى سے نجات دلائي اور نابينا كو بينا كيا اور دين اسلام كى طرف راہنمائي فرمائي اور سيدھے راستے كى طرف دعوت دي، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پيغمبر كى مہربانى اور اس كے اختيار اور رغبت سے اس كى روح قبض فرمائي_ اب ميرے باپ اس دنيا كى سختيوں سے آرام ميں ہيں اور آخرت كے عالم ميں اللہ تعالى كے فرشتوں اور پروردگار كى رضايت كے ساتھ اللہ تعالى كے قرب ميں زندگى بسر كر رہے ہيں، امين اور وحى كے لئے چتے ہوئے پيغمبر پر درود ہو_آپ نے اس كے بعد مجمع كو خطاب كيا اور فرمايا لوگو تم اللہ تعالى كے امر اور نہى كے نمائندے اور نبوت كے دين اور علوم كے حامل تمہيں اپنے اوپر امين ہونا چاہيئےم ہو جن كو باقى اقوام تك دين كى تبليغ كرنى ہے تم ميں پيغمبر(ص) كا حقيقى جانشين موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پيمان اور چمكنے والانور ہے اس كى چشم بصيرت روش اور رتبے كے آرزومند ہيں اس كى پيروى كرنا انسان كو بہشت رضوان كى طرف ہدايت كرتا ہے اس كى باتوں كو سننا نجات كا سبب ہوتا ہے اس كے وجود كى بركت سے اللہ تعالى كے نورانى دلائل اور حجت كو دريافت كيا جاسكتا ہے اس كے وسيلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شريعت كے قوانين كو حاصل كيا جاسكتا ہے_اللہ تعالى نے ايمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسيلہ قرار ديا ہے___ اللہ نے نماز واجب كى تا كہ تكبر سے روكاجائے_ زكوة كو وسعت رزق اور تہذيب نفس كے لئے واجب قرار ديا_ روزے كو بندے كے اخلاص كے اثبات كے لئے واجب كيا_ حج كو واجب كرنے سے دين كى بنياد كو استوار كيا، عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزديكى كے لئے ضرورى قرار ديا، اہلبيت كى اطاعت كو ملت اسلامى كے نظم كے لئے واجب قرار ديا اور امامت كے ذريعے اختلاف و افتراق كا سد باب كيا_ امر بالمعروف كو عمومى مصلحت كے ماتحت واجب قرار ديا، ماں باپ كے ساتھ نيكى كو ان كے غضب سے مانع قرار ديا، اجل كے موخر ہونے اور نفوس كى زيادتى كے لئے صلہ رحمى كا دستور ديا_قتل نفس كو روكنے كے لئے قصاص كو واجب قرار ديا_ نذر كے پورا كرنے كو گناہوں گا آمرزش كا سبب بنايا_ پليدى سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائي، بہتان اور زنا كى نسبت دينے كى لغت سے روكا، چورى نہ كرنے كو پاكى اور عفت كا سبب بتايا_ اللہ تعالى كے ساتھ شرك، كو اخلاص كے ماتحت ممنوع قرار ديا_لوگو تقوى اور پرہيزگارى كو اپناؤ اور اسلام كى حفاظت كرو اور اللہ تعالى كے اوامر و نواحى كى اطاعت كرو، صرف علماء اور دانشمندى خدا سے ڈرتے ہيں_اس كے بعد آپ نے فرمايا، لوگو ميرے باپ محمد(ص) تھے اب ميں تمہيں ابتداء سے آخر تك كے واقعات اور امور سے آگاہ كرتى ہوں تمہيں علم ہونا چاہيئےہ ميں جھوٹ نہيں بولتى اور گناہ كا ارتكاب نہيں كرتي_لوگو اللہ تعالى نے تمہارے لئے پيغمبر(ص) جو تم ميں سے تھا بھيجا ہے تمہارى تكليف سے اسے تكليف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت كرتے تھے اور مومنين كے حق ميں مہربان اور دل سوز تھے_لوگو وہ پيغمبر ميرے باپ تھے نہ تمہارى عورت كے باپ، ميرے شوہر كے چچازاد بھائي تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائي، كتنى عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنى رسالت كو انجام ديا اور مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر سخت ضرب وارد كى ان كا گلا پكڑا اور دانائي اور نصيحت سے خدا كى طرف دعوت دي، بتوں كو توڑا اور ان كے سروں كو سرنگوں كيا كفار نے شكست كھائي اور شكست كھا كر بھاگے تاريكياں دور ہوگئيں اور حق واضح ہوگيا، دين كے رہبر كى زبان گويا ہوئي اور شياطين خاموش ہوگئے، نفاق كے پيروكار ہلاك ہوئے كفر اور اختلاف كے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبيت كى وجہ سے شہادت كا كلمہ جارى كيا، جب كہ تم دوزخ كے كنارے كھڑے تھے اور وہ ظالموں كا تر اور لذيذ لقمہ بن چكے تھے اور آگ كى تلاش كرنے والوں كے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل كے پاؤں كے نيچے ذليل تھے گندا پانى پيتے تھے اور حيوانات كے چمڑوں اور درختوں كے پتوں سے غذا كھاتے تھے دوسروں كے ہميشہ ذليل و خوار تھے اور اردگرد كے قبائل سے خوف و ہراس ميں زندگى بسر كرتے تھے_ان تمام بدبختيوں كے بعد خدا نے محمد(ص) كے وجود كى بركت سے تمہيں نجات دى حالانكہ ميرے باپ كو عربوں ميں سے بہادر اور عرب كے بھيڑيوں اور اہل كتاب كے سركشوں سے واسطہ تھا ليكن جتنا وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے خدا سے خاموش كرديتا تھا، جب كوئي شياطين ميں سے سر اٹھاتا يا مشركوں ميں سے كوئي بھى كھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائي على (ع) كو ان كے گلے ميں اتار ديتے اور حضرت على (ع) ان كے سر اور مغز كو اپنى طاقت سے پائمال كرديتے اور جب تك ان كى روشن كى ہوئي آگ كو اپنى تلوار سے خاموش نہ كرديتے جنگ كے ميدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ كى رضا كے لئے ان تمام سختيوں كا تحمل كرتے تھے اور خدا كى راہ ميں جہاد كرتے تھے، اللہ كے رسول كے نزديك تھے_ على (ع) خدا دوست تھے، ہميشہ جہاد كے لئے آمادہ تھے، وہ تبليغ اور جہاد كرتے تھے اور تم اس حالت ميں آرام اور خوشى ميں خوش و خرم زندگى گزار رہے تھے اور كسى خبر كے منتظر اور فرصت ميں رہتے تھے دشمن كے ساتھ لڑائي لڑنے سے ا جتناب كرتے تھے اور جنگ كے وقت فرار كرجاتے تھے_جب خدا نے اپنے پيغمبر كو دوسرے پيغمبروں كى جگہ كى طرف منتقل كيا تو تمہارے اندرونى كينے اور دوروئي ظاہر ہوگئي دين كا لباس كہنہ ہوگيا اور گمراہ لوگ باتيں كرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھايا اور باطل كا اونٹ آواز ديتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شيطان نے اپنا سركمين گاہ سے باہر نكالا اور تمہيں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغير سوچے اس كى دعوت قبول كرلى اور اس كا احترام كيا تمہيں اس نے ابھارا اور تم حركت ميں آگئے اس نے تمہيں غضبناك ہونے كا حكم ديا اور تم غضبناك ہوگئے_لوگو وہ اونٹ جو تم ميں سے نہيں تھا تم نے اسے با علامت بناكر اس جگہ بيٹھايا جو اس كى جگہ نہيں تھي، حالانكہ ابھى پيغمبر(ص) كى موت كو زيادہ وقت نہيں گزرا ہے ابھى تك ہمارے دل كے زخم بھرے نہيں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پيغمبر(ص) كو دفن بھى نہيں كيا تھا كہ تم نے فتنے كے خوف كے بہانے سے خلافت پر قبضہ كرليا، ليكن خبردار رہو كہ تم فتنے ميں داخل ہوچكے ہو اور دوزخ نے كافروں كا احاطہ كر ركھا ہے_ افسوس تمہيں كيا ہوگيا ہے اور كہاں چلے جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درميان موجود ہے اور اس كے احكام واضح اور اس كے اوامر و نواہى ظاہر ہيں تم نے قرآن كى مخالفت كى اور اسے پس پشت ڈال ديا، كيا تمہارا ارادہ ہے كہ قرآن سے اعراض اور روگرداني كرلو؟ يا قرآن كے علاوہ كسى اور ذريعے سے قضاوت اور فيصلے كرتا چاہتے تو؟ ليكن تم كو علم ہونا چاہيئے كہ جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے دين كو اختيار كرے گا وہ قبول نہيں كيا جائے گا اور آخرت ميں وہ خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہوگا، اتنا صبر بھى نہ كرسكے كہ وہ فتنے كى آگ كو خاموش كرے اور اس كى قيادت آسان ہوجائے بلكہ آگ كو تم نے روشن كيا اور شيطان كى دعوت كو قبول كرليا اور دين كے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) كے خاموش كرنے ميں مشغول ہوگئے ہو_ كام كو الٹا ظاہر كرتے ہو اور پيغمبر(ص) كے اہلبيت كے ساتھ مكر و فريب كرتے ہو، تمہارے كام اس چھرى كے زخم اور نيزے كے زخم كى مانند ہيں جو پيٹ كے اندر واقع ہوئے ہوں_كيا تم يہ عقيدہ ركھتے ہو كہ ہم پيغمبر(ص) سے ميراث نہيں لے سكتے، كيا تم جاہليت كے قوانين كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانين سے بہتر ہيں، كيا تمہيں علم نہيں كہ ميں رسول خدا(ص) كى بيٹى ہوں كيوں نہيں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح يہ روشن ہے_ مسلمانوں كيا يہ درست ہے كہ ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبكر آيا خدا كى كتاب ميں تو لكھا ہے كہ تم اپنے باپ سے ميراث لو اور ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم رہوں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں كہتا كہ سليمان داود كے وارث ہوئے_''ورث سليمان داؤد''كيا قرآن ميں يحيى عليہ السلام كا قول نقل نہيں ہوا كہ خدا سے انہوں نے عرض كى پروردگار مجھے فرزند عنايت فرما تا كہ وہ ميرا وارث قرار پائے او آل يعقوب كا بھى وارث ہو_كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں كے وارث ہوتے ہيں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ اللہ نے حكم ديا كہ لڑكے، لڑكيوں سے دوگنا ارث ليں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ تم پر مقرر كرديا كہ جب تمہارا كوئي موت كے نزديك ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصيت كرے كيونكہ پرہيزگاروں كے لئے ايسا كرنا عدالت كا مقتضى ہے_كيا تم گمان كرتے ہو كہ ميں باپ سے نسبت نہيں ركھتي؟ كيا ارث والى آيات تمہارے لئے مخصوص ہيں اور ميرے والد ان سے خارج ہيں يا اس دليل سے مجھے ميراث سے محروم كرتے ہو جو دو مذہب كے ايك دوسرے سے ميراث نہيں لے سكتے؟ كيا ميں اور ميرا باپ ايك دين پر نہ تھے؟ آيا تم ميرے باپ اور ميرے چچازاد على (ع) سے قرآن كو بہتر سمجھتے ہو؟اے ابوبكر فدك اور خلافت تسليم شدہ تمہيں مبارك ہو، ليكن قيامت كے دن تم سے ملاقات كروں گى كہ جب حكم اور قضاوت كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہوگا اور محمد(ص) بہترين پيشوا ہيں_اے قحافہ كے بيٹھے، ميرا تيرے ساتھ وعدہ قيامت كا دن ہے كہ جس دن بيہودہ لوگوں كا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشيمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالى كے عذاب كو ديكھ لوگے آپ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا:اے ملت كے مددگار جوانو اور اسلام كى مدد كرنے والو كيوں حق كے ثابت كرنے ميں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت ميں ہو؟ كيا ميرے والد نے نہيں فرمايا كہ كسى كا احترام اس كى اولاد ميں بھى محفوظ ہوتا ہے يعنى اس كے احترام كى وجہ سے اس كى اولاد كا احترام كيا كرو؟ كتنا جلدى فتنہ برپا كيا ہے تم نے؟ اور كتنى جلدى ہوى اور ہوس ميں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم كے ہٹانے ميں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت ركھتے ہو اور ميرے مدعا اور خواستہ كے برلانے پر طاقت ركھتے ہو_ كيا كہتے ہو كہ محمد(ص) مرگئے؟ جى ہاں ليكن يہ ايك بہت بڑى مصيبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زيادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) كى غيبت سے زمين تاريك ہوگئي ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہيں آپ كى مصيبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہيں، اميديں ٹوٹ گئيں، پہاڑ متزلزل اور ريزہ ريزہ ہوگئے ہيں پيغمبر(ص) كے احترام كى رعايت نہيں كى گئي، قسم خدا كى يہ ايك بہت بڑى مصيبت تھى كہ جس كى مثال ابھى تگ ديكھى نہيں گئي اللہ كى كتاب جو صبح اور شام كو پڑھى جا رہى ہے آپ كى اس مصيبت كى خبر ديتى ہے كہ پيغمبر(ص) بھى عام لوگوں كى طرح مريں گے، قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے كہ محمد(ص) بھى گزشتہ پيغمبروں كى طرح ہيں، اگر آپ(ص) مرے يا قتل كئے گئے تو تم دين سے پھر جاوگے، جو بھى دين سے خارج ہوگا وہ اللہ پر كوئي نقصان وارد نہيں كرتا خدا شكر ادا كرنے والوں كو جزا عنايت كرتا ہے (1)_اے فرزندان قبلہ: آيا يہ مناسب ہے كہ ميں باپ كى ميراث سے محروم رہوں جب كہ تم يہ ديكھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور يہاں موجود ہو ميرى پكار تم تك پہنچ چكى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زيادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، ميرے استغاثہ كى آواز تم تك پہنچتى ہے ليكن تم اس پر لبيك نہيں كہتے ميرى فرياد كو سنتے ہو ليكن ميرى فرياد رسى نہيں كرتے تم بہادرى ميں معروف اور نيكى اور خير سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ كى اولاد ہو تم ہم اہلبيت كے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں كے ساتھ تم نے جنگيں كيں سختيوں كو برداشت كيا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائي كى ہے جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ہم حكم ديتے تھے تم اطاعت كرتے تھے اسلام نے رونق پائي اور غنائم زيادہ ہوئے اور مشركين تسليم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگيا اور دين كا نظام مستحكم ہوگيا_اے انصار متحير ہوكر كہاں جارہے ہو؟ حقائق كے معلوم ہو جانے كے بعد انہيں كيوں چھپانے ہو؟ كيوں ايمان لے آنے كے بعد مشرك ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں كا جنہوں نے اپنے ايمان اور عہد اور پيمان كو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ كيا ہو كہ رسول خدا(ص) كو شہر _ بدر كريں اور ان سے جنگ كا آغاز كريں كيا منافقين سے ڈرتے ہو؟ حالانكہ تمہيں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہيئے تھا_ لوگو ميں گويا ديكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ ميں بيٹھ كر عيش اور نوش ميں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد كے وسيع ميدان سے قرار كر كے راحت طلبى كے چھوٹے محيط ميں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كرديا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل ديا ہے ليكن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمين كے لوگ كافر ہوجائيں تو خدا تمہارا محتاج نہيں ہے_اے لوگو جو كچھ مجھے كہنا چاہيئے تھا ميں نے كہہ ديا ہے حالانكہ ميں جانتى ہوں كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہيں، ليكن كيا كروں دل ميں ايك درد تھا كہ جس كو ميں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كرديا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدك اور خلافت كو خوب مضبوطى سے پكڑے ركھو ليكن تمہيں يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ اس ميں مشكلات اور دشوارياں موجود ہيں اور اس كا ننگ و عار ہميشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى كا خشم اور غصہ اس پر مزيد ہوگا اور اس كى جزا جہنم كى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے كردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج ديكھ ليں گے_ لوگو ميں تمہارے اس نبى كى بيٹى ہوں كہ جو تمہيں اللہ كے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام ليں گے تم بھى انتظار كرو ہم بھى منتظر ہيں(2)_1) سورہ آل عمران_2) احتجاج طبرسي، طبع نجف 1386 ھ ج 1 131_141 _ شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 211_ كتاب بلاغات النسائ، تاليف احمد بن طاہر، متولد 204 ہجرى ص 12_ كشف الغمہ، ج 2 ص 106_

Monday 5 February 2018

انتظار فرج

انتظار فرج

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہاگر میں قائم(عج) کے زمانے میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت میں گزار دیتا۔

اسلام میں مہم ترین عبادت انتظار فرج ہے،حضرت علی علیہ السلام   پیغمبر خدا (ص) سے  روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا:«أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ»۔(1)
ترجمہ:افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے۔
امام زمانہ(عج) گذشتہ تمام امتوں کے موعود ہیں، آپ کے ظہور  سے زمین عدالت سے پر ہو جائے گی، چنانچہ آپ حضرات ہمیشہ مفاتیح الجنان میں پڑھتے ہیں:
«السّلامُ علی المَهدیِّ الذّی وَعَدَ اللهُ عزَّوجلَّ بِهِ الأمَمَ، أن یَجمَعَ به الکَلِمَ و یَلُمُّ به الشَّعَثَ و یَملأَ بِهِ الأرضَ قِسطَاً و عَدلاً و یُمکِّنَ لَهُ و یُنجِزَ بِهِ وعدَ المُؤمنِینَ»۔(2)
ترجمہ:سلام ہو مهدی پر، کہ جن کا  خداوند متعال نے  سب امتوں کو  وعده  دیا ہے تاکہ لوگوں کو اس طرح سے جمع کریں کہ ان میں کسی قسم کا تفرقہ نہ ہو اور انھیں کے وسیلہ سے زمین پر عدل قائم ہوگا، اور خداوند عالم حضرت کو یہ قدرت عطا فرمائے گا،اور اللہ کا یہ وعدہ مؤمنین کی عزت کے لیے پورا ہو کر رہے گا۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو بھی اپنے امام (عج) کے انتظار میں اس دنیا سے چل بسے  وہ ایسے ہی جیسے وہ اپنے امام کے ساتھ ان کےخیمہ میں ہے اس کے بعد کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا:بلکہ وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے خود امام(عج) کی رکاب میں رہ کر جنگ کی ہو،اس کے بعد ارشاد فرمایا:«لا وَالله إلاّ کمَن إستَشَهدَ مع رسولِ اللهِ»بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اجر کا مستحق ہے گویا وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو رسول اللہ (ص) کے رکاب میں شہید ہوا ہو۔(3)
امام صادق(ع) سے سوال ہوا کہ کیا قائم پیدا ہو چکے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں اگر میں قائم(عج) کے زمانے میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت میں گزار دیتا۔(4)
نتیجہ:انتظار فرج تمام عبادتوں میں سے افضل عبادت ہے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہ اپنے امام کے ظہور کے لیے دعا کرے اور مہم تو یہ ہے کہ انسان کا ہر لمحہ اپنے امام کے لیے ہونا چاہیے ،انسان ذرا سوچے کہ میں جو کام بھی کر رہا ہوں کیا  میرے  مولا اس سے راضی بھی ہیں یا نہیں۔
......................................................................................................................................................................................
حوالہ جات:
۱۔محمد بن بابویه قمی،شیخ صدوق،کمال الدین و تمام النعمه، قم، دارالکتب الاسلامیه، 1395، چاپ دوم، ج1، ص287۔
۲۔قمی، شیخ عباس؛ مفاتیح الجنان، مهدی الهی قمشه ای،قم، ارم، 1382، ص1029۔
۳۔قمی، شیخ عباس، نگاهی به زندگانی چهارده معصوم، محمد محمدی اشتهاردی، قم، ناصر، 1372، ص577۔
۴۔مجلسی، محمدباقر،بحارالانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، 1404ہجری، ج‏51، 148، باب

Thursday 25 January 2018

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!

باپ اور بیٹی کا تنہا بیٹھنا۔۔۔۔۔!
🔺کچھ عرصہ قبل جسٹس سعید الزمان صدیقی کے ایک بیان پر کافی لے دے ہوئی، اور مذاق اڑایا گیا کہ باپ اور بیٹی کا ایک کمرے میں تنہا بیٹھنا اسلامی اعتبار سے درست نہیں،
جبکہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے. میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے معاشرے کا ہر باپ جنسی درندہ ہوتا ہے مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ جب کچھ ذہنی و جنسی بیمار مردوں پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے،
تب وہ باپ بھائی، چچا یا ماموں نہیں رہتے،

اورشیطان کے وار سے بلعم باعور جیسے بڑے بڑے عابد نہیں بچ سکے تو ہم کیا ہیں؟ میری خالہ کے گھر ایک غریب دائی صدقہ لینے آتی ہے.
ایک بار میری موجودگی میں وہ آئی، اور باتوں باتوں میں خالہ کو کوڈ ورڈز میں کہنے لگی کہ اس ماہ میں نے تین کیس "خراب" کیے، جن میں سے ایک باپ، دوسرا بھائی اور تیسرا ایک چچا کا تھا.

🔺یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے نو بالغ لڑکوں یا گھر کے مردوں میں ہیجان سب سے پہلے اپنے گھر کی مستورات کے نامناسب لباس دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.

🔺مائیں، بیٹیاں اور بہنیں گہرے گلے، آدھی آستینوں، اور چھوٹے چاکوں والی قمیضوں کے ساتھ چست پاجامے پہن کر بنا دوپٹے کے گھر میں پھریں گی تو شیطان کو اپنا وار کرنے کا بھر پور موقع ملے گا.

🌴اسی لیے اسلام نے عورت کو سینہ چھپانے اور اوڑھنی ڈالنے کا حکم دیا ہے.گھر کا ماحول ماں پاکیزہ بنائے گی تو اولاد حیا دار ہوگی. حیا اپنے ساتھ انوار و برکات لازما لاتی ہے ورنہ جو تربیت میڈیا ہمارے گھروں کی کر چکا ہے، اس کے یہی ثمرات اور نتائج دیکھنے کو ملیں گے.

🔺ایسے معاشرے میں جہاں شادی کی عمر 28، 30 سال ہو، وہاں 14 سال کا ایک نو عمر لڑکا گھر کی عورتوں کے حلیوں سے حظ کشید کرکے مشترکہ خاندانی نظام کا "فائدہ" کیونکر نہ اٹھائے گا.

🔺اس تحریر میں طبقہ اشرافیہ کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ
ان کے ہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے.
یہاں موضوع بحث لوئر یا مڈل کلاس دنیا دار گھر ہیں جن میں پرائیویسی کا تصور نہیں،
وہاں ایسے واقعات رونما ہوجا تے ہیں اور "ڈھانپ" دیے جاتے ہیں،
کیونکہ زنان خانہ اور مردان خانہ اب ہمارے نزدیک آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہے،

اور ایک یا دو کمروں میں رہائش پذیر خاندان پرائیویسی کے مفہوم سے بھی واقف نہیں. جدیدیت کی دوڑ میں حیا سے غفلت برت کر جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، ان کا سدباب نہ کیا گیا تو حالات مزید بھیانک ہوتے جائیں گے.

🛑 اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں:
بچیاں اور مائیں ساتر لباس استعمال کریں. فیشن کریں مگر ستر ڈھانپنے کے اہتمام کے ساتھ. فیشن صرف ہاف سلیوز، گہرے گلوں یا چست پاجاموں کا نام نہیں. 🛑

🌴حرمت مصاہرت کے مسائل بچیوں، بچوں اور باپوں کو ازبر ہونے چاہییں. 🌴

بچیاں بلوغت کے بعد والد کو نہ دبائیں نہ ہی کوئی اور جسمانی خدمت کریں یا لپٹیں. جسمانی خدمت بیٹے یا مائیں کریں اور اگر اشد ضرورت یا مجبوری ہو تو اس بارے میں گنجائش کی تفصیلات و مسائل کے لیے مفتیان کرام سے رجوع کریں.

📛بیٹیاں باپ کے ساتھ بیٹھ کر اکیلے یا سب کے ساتھ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں. اور مائیں بھی اپنے چودہ پندرہ سال کے بیٹوں سے جسمانی کنکشن یعنی گلے لگانے یا ساتھ لٹانے سے پرہیز کریں.

📛 باپ بیٹیوں کے کمرے میں دروازہ کھٹکھٹا کر آئیں یا دور سے کھنکھارتے ہوئے آئیں،
تاکہ بچیاں اپنا لباس درست کر لیں. یہی صورت ایک یا دو کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہو کر بھی اختیار کی جا سکتی ہے.

📛 باپ بچیوں کو سوتے سے مت جگائیں، اور یہ ذمہ داری والدہ سر انجام دے، کیونکہ سوتے میں لباس بےترتیب ہو سکتا ہے.

📛بھائیوں یا محرم رشتوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں ہاتھ مارنا، پیار میں گلے لگنا یا سلام کے لیے ہاتھ ملانا صرف ڈراموں فلموں کی حد تک ہی رہنے دیں.

ایک اسلامی معاشرے کے مکینوں کے لیے اس کی کوئی گنجائش نہیں.
مگر اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بہنوئیوں یا کزنز سے ہاتھ ملانا اور شادی بیاہ میں ان کے یا محرم رشتوں کے ساتھ ناچناگانا معیوب نہیں سمجھا جاتا، تبھی شیطان اپنے داؤ پیچ آزما لیتا ہے.

📛لاڈ میں چچاؤں کے گلے جھول جانا، ماموؤں سے بغل گیر ہونا، باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر انڈین ڈرامے دیکھنا جن کی کہانی ہی ناجائز معاشقوں سے شروع ہو کر ناجائز بچوں کے جنم سے آگے بڑھتی ہے، اور حمل و زچگی کے مناظر عام سی بات ہیں، ان سب سے بچیں.

🌷بچیوں کو سکھائیں کہ وہ خود کو جتنا ڈھانپ کر رکھیں گی اور ریزرو رہیں گی، اتنا ہی ان کے ایمان، قلب و چہرے کے نور میں اضافہ ہوگا اور کسی کو ان سے "چھیڑ چھاڑ" کی بھی جرات نہ ہوگی.

یاد رہے کہ یہ سب اقدامات حرف آخر نہیں، بلکہ احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اپنانے کے باوجود اگر کوئی محرم رشتہ جنسی درندہ بن جائے تو اس کا علاج سنگساری یا بندوق کی ایک گولی ہے تاکہ بقیہ درندوں کی حیوانیت کو لگام دی جا سکے.....⚠

Saturday 20 January 2018

ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ شیعہ ﮨﻮﮞ ( ﭼﺮﺍ ﺷﯿﻌﻪ ﻫﺴﺘﻢ؟ )

افسوسﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ ...
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ شیعہ ﮨﻮﮞ ( ﭼﺮﺍ ﺷﯿﻌﻪ ﻫﺴﺘﻢ؟ )
ایران کے نامور مفسر قران علامہ محسن قرائتی فرماتے ہیں:
ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ سیمینار ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﺮﻧﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ جنابﻗﺮﺁﺋﺘﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺑﺎﺕ۔۔۔ !
ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳاتید ﯾﻮﯾﻨﻮﺭﺳﭩﯽ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ، یونیورسٹی ﺗﮩﺮﺍﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﻧﺎ
ﺟﺎﻧﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ اھل علم ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﮞ،
ﮐﮩﺎ: ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﮨﯿﮟ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔۔
ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ۔۔
ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﻭﮨﺎﺑﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﺍﭼﮭﺎ۔۔۔ ﻭﮨﺎﺑﯽ۔۔۔۔!
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﺑﯽ ﮨﻢ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﺮ ﻭ ﻣﺸﺮﮎ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺗﻮ ﺑﮭﺘﯿﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﮯ ، ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ
ﺗﻤﺎﭼﮧ ﺗﮏ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ، ﺗﻤﺎﻡ ﮐﻔﺮ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ، ﭘﻮﺭﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﭙﮍ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻥ ﻭﮨﺎﺑﯽ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻧﮯ۔۔۔۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﮨﻢ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ کر ﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﺟﮩﺎﺯ کرﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ
ﺍﻭﺭ ﺑﺲ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ وہابی پروفیسرز میں ﺍﯾﮏ قرانیﺑﺤﺚ ﮐﯽ ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ، ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔۔۔
ﺍﯾﮏ وہابی مولوی ﺗﮭﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ
ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔۔۔۔ ﺍﺣﺴﻨﺖ۔۔۔ﻣﮕﺮ ﺣﯿﻒ ( ﺍﻓﺴﻮﺱ ) ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ طے نہیں ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﮮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ اب تک ﮐﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﻧﮧ ﺷﯿﻌﻮﮞ
ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﮧ ﺳﻨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ۔۔۔ ﻗﺮﺁﻥ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺭﺩ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﮯ، ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔۔ افسوس ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ،۔۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻮ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮨﮯ۔۔۔ ﯾﮧ افسوس ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﮍﮦ ﻏﺮﻕ
ﮨﮯ، ۔۔۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ثابتﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮨﻮ، ۔۔
ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺟﻌﻠﯽ ﮨﻮ۔۔۔
ﺷﻌﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﺨﯿﻼﺕ
ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﺑﻠﮑﮧ آیات ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ نیچا ﮐﺮﻭﮞ، ﺑﻠﮑﮧ ﻣقصد ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺤﻘﯿﺮ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﮞ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ
ﺗﺤﻘﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ : افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔۔
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ طریقہ ﻫﮯ ﮐﮧ افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ ، ۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ منٹ ﻣﯿﮟ شیعہ کی حقانیت کو قران سے ثابت کروں ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﺑﻮﻟﻮ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ۔۔۔
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ۔۔۔۔
ﺟﺐ ﺗﮏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ (ص ) ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺳﻨﯽ۔۔ ھمارے 
ﺭﮨﺒﺮ ﺧﻮﺩ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺗﮭﮯ ، ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﻋﻤﻞ ﺗﮭﮯ۔۔ ﺟﺐ
ﺭﺳﻮﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ،
ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﮧ ﮐﻮ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺳﮯ ﻟﯿﺎ، ﻭﮦ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮩﻼﺋﮯ۔۔ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻗﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﻪ ﭼﺎﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻟﻮﮔﻮ ﮞ ﺳﮯ ﻟﯽ۔۔۔۔
ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺷﺎﻓﻌﯽ، ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ، ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺍﻧﺲ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺳﮯ ﻓﻘﮧ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ دعوی ﭘﺮ ﺗﯿﻦ ﺁﯾﺎﺕ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺑﻄﻮﺭ ﺩﻟﯿﻞ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺍﻭﻝ : ﻗﺮﺁﻥ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ : ﯾﻄﮩﺮﮐﻢ ﺗﻄﯿﮩﺮﺍ،
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ تمہارے ان ﭼﺎﺭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔۔۔بلکہ جنکی ہم پیروی کرتے ہیں صرف وہ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﯾﻄﮩﺮﮐﻢ ﺗﻄﮩﯿﺮﺍ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺩﻭﻡ : ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ پہلی اسلامی صدی ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ، ﺟﺒﮑﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻓﻘﮧ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ امام ابوحنیفہ,مالک.,شافعی اور حنبل دوسری صدی ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﺣﻢ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ۔۔۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ صدی ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ۔۔ ﺍﻟﺴﺎﺑﻘﻮﻥ ﺍﻟﺴﺎﺑﻘﻮﻥ ﺍﻭﻟﺌﮏ ﮬﻢ ﺍﻟﻤﻘﺮﺑﻮﻥ۔۔
جو پہلے ایمان لائے وہ اللہ کے قریب ہیں.
ﺳﻮﻡ؛ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ(ﻉ ) ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔نہ تمہارے چارو.
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪﯾﻦ۔۔۔ ﺟﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﻻﺗﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺋﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺁﯾﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ۔۔۔
لہذا ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺖ ﮐﮩﻨﺎ : افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔۔۔
( ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﭼھا ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺩﻟﯿﻞ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﻨﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ )
یوں جب سب کے سامنے مذھب شیعہ ﺣﻖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮭﭽﺎ ﮐﮭﭻ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﻟﻮﮒ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﮑﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔۔۔ .....
ﺣﺠﺘﮧ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﻭﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ ﺁﻗﺎﯼ ﺷﯿﺦ ﻣﺤﺴﻦ ﻗﺮﺁﺋﺘﯽ

Monday 15 January 2018

حديث ثقلين کا مفہوم

حديث ثقلين کا مفہوم

چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار ديا ہے اور دونوں کو امت کے درميان حجت خدا قرار ديا ہے لہٰذا اس سے دو نتيجے نکلتے ہيں:

1- قرآن کي طرح عترت رسول (ص) کا کلام بھي حجت ہے اور تمام ديني امور خواہ وہ عقيدے سے متعلق ہوں يا فقہ سے متعلق ان سب ميں ضروري ہے کہ ان کے کلام سے

تمسک کيا جائے ،اور ان کي طرف سے دليل و رہنمائي مل جانے کے بعد ان سے روگرداني کر کے کسي اور کي طرف نہيں جانا چاہئے .

پيغمبر خدا (ص) کي وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سياسي امور کي رہبري کے مسئلہ ميں دو گروہوں ميں بٹ گئے اور ہر گروہ اپني بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دليل پيش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درميان اس مسئلہ ميں اختلاف ہے مگر اہل بيت کي علمي مرجعيت کے سلسلے ميں کوئي اختلاف نہيں کيا جاسکتا .

کيونکہ سارے مسلمان حديث ثقلين کے صحيح ہونے پر متفق ہيں اور يہ حديث عقائد اور احکام ميں قرآن اور عترت کو مرجع قرار ديتي ہے اگر امت اسلامي اس حديث پر عمل کرتي تو اس کے درميان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسيع ہوجاتا.

2- قرآن مجيد، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کي خطا اور غلطي سے محفوظ ہے يہ کيسے ممکن ہے کہ اس ميں خطا اور غلطي کا احتمال ديا جائے جبکہ خداوند کريم نے اس کي يوں توصيف کي ہے:

( لاٰيْتِيہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلاٰمِنْ خَلْفِہِ تَنزِيل مِنْ حَکِيمٍ حَمِيدٍ)

''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پيچھے سے اور يہ حکيم و حميد خدا کي طرف سے نازل ہوا ہے .''

اگر قرآن مجيد ہر قسم کي خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھي ہر قسم

کي خطا سے محفوظ ہيں کيونکہ يہ صحيح نہيں ہے کہ ايک يا کئي خطاکار افراد قرآن مجيد کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائيں- يہ حديث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کي لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہيں البتہ يہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہيں ہے کيونکہ ممکن ہے کہ کوئي معصوم ہو ليکن نبي نہ ہوجيسے حضرت مريم اس آيہء شريفہ :

(ِنَّ اï·²َ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَي نِسَائِ الْعَالَمِينَ)

(اے مريم !) خدا نے تمہيں چن ليا اور پاکيزہ بناديا ہے اور عالمين کي عورتوں ميں منتخب قرار ديا ہے -

کے مطابق گناہ سے تو پاک ہيں ليکن پيغمبر نہيں ہيں-

مجمع جہاني اہل بيت (ع)

Saturday 13 January 2018

اولیاء الٰہی کی صفات

اولیاء الٰہی کی صفات


حدیث :

عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰہ ،من اولیاء اللّٰہ الذین لا خوف علیہم ولاہم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاہرہا،فاہتموا بآجلہا حین   اہتم الناس بعاجلہا،فآمتوا منہا ما خشوا ان یمیتہم ،وترکوا منہا ما علموا عن سیترکہم فما عرض لہم منہا عارض الا رفضوہ،ولا خادعہم من رفعتہا خادع الا وضعوہ،خلقت الدنیا عندہم فما یجددونہا،وحربت بینہم فما یعمرونہا،وما تت فی صدورہم فما یحبونہا،بل یہدمونہا فیبنون بہا آخرتہم ،ویبیعونہا فیشترون بہا ما یبقیٰ لہم ،نظروا الیٰ اہلہا سرعی قد حلت بہم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]



ترجمہ :

انس ابن مالک   نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم   ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا   وہ   دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو   بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ   تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔



حدیث کی شرح :

غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو   پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں <یعلمون ظاہراً من الحیاة الدنیا وہم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ <مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔



جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے <یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔



جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ   سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند   رہتاہے ۔






انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے   اچھے ہیں وہ   دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔



آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے   لوگ کتنی محنت کرتے   جبکہ   یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا،   بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔

یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :



1.      اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔

2.      وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں

3.      وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔



ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔



اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔



--------------------------------------------------------------------------------

[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱

[2] سورہ روم آیہ/ ۷

[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )

[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱

[5] سورہٴ بقرة

Thursday 11 January 2018

Taqleed and Mujtahid

اسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

اگرچے تقلید کی رد میں زاکر حضرات نے بہت بدزبانی گالی گلوچ اور ناقص دلائل دیئے ہیں مگر انہیں اُن کی زبان میں جواب دینا ہمارے عقیدے کے خلاف ہے۔ لہزا تقلید کے حق میں قرآن و حدیث سے دلائلِ پیشِ خدمت ہیں۔
کچھ منبر سوار لوگ یزید کی طرح اپنی مرضی سے قرآن کی آیات کو تقلید کے خلاف فٹ کر دیتے ہیں حالانکہ تفسیر میں اُن آیات کا مصداق و وجہ نزول ہی کچھ اور ہوتاہے۔ 
بہر حال درج زیل👇آیت فقہا(مجتہدین) اور تقلید کے زمرے میں ہے
ملاحضہ کریں

سورة التوبہ آیت122

•ومَا کان المومنون لینفرو کافةط فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفةُُ لیتفقھوفی الدین ولینذر قومھم اذا رجعو الیھم العلھم یحذرون•
                                  ترجمہ👇

اور ایمان لانے والوں کے لیئے یہ نہیں ہے کہ (علمِ دین کے حصول کے لیئے) وہ سب کے سب نقل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ سفر کریں تاکہ دین کے سمجھنے کی قابلیت حاصل کریں اور پھر جب واپس جائیں تو اپنی قوم کو متنبہ کریں۔ شاید وہ اثر لیں۔

          
            👇تقلید کی اہمیت کلامِ معصومؑ سے👇

احمد ابن عباس نجاشی نے رجال نجاشی میں ابان ابن تغلب سے مروی امام محمد باقرؑ کا یہ قول نقل کیا ہے👇

اے ابان کوفہ کی مسجد میں جاکر بیٹھ جاٶ اور لوگوں کو فتویٰ دو میں اپنے شیعوں میں تم جیسے فتویٰ دینے والے لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔

شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ باب نمبر11 جلد14 کتاب القضا میں امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت معاذ کے واسطے سے نقل کی ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے معاذ سے فرمایا👇

اے معاذ ہم نے سنا ہے کہ تم مسجدوں میں جا کر لوگوں کو فتویٰ دیتے ہو؟
معاز نے کہا جی ہاں جو کچھ میں نے آپؑ سے حاصل کیا ہے وہ آپ کے ماننے والوں کو بیان کر دیتا ہوں 
تو امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں ایسا ہی کیا کرو۔

شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ باب نمبر11 کتاب القضا میں نقل کیا ہے عبدالعزیز نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی یا حضرتؑ میرا گھر بہت دور ہے میں اپنے موردِ ابتلاء مسائل پوچھنے کے لیئے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا کیا آپ یونس ابن عبدالرحمٰن کی تائید کرتے ہیں؟ اور میں اپنے دینی مسائل کا حل ان سے حاصل کر سکتا ہوں؟ 
امامؑ نے فرمایا ہاں!

(مزکورہ روایت👆سے واضیح ہے کے آئمہؑ کے ادوار میں بھی دور دراز کے لوگ فقہا کی تقلید کرتے تھے) 

شیخ صدوقؒ کی کمال الدین وتمام النعمت میں مرقوم ہے کہ 
اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن عثمان العمریؒ کے زریعے حضرت حجت(امام مہدیؑ) کی خدمت میں ایک خط لکھ کر کچھ مشکل مسائل کا حل دریافت کیا تو امام علیہ السلام نے میرے سوالات کے جوابات میں یہ بھی فرمایا کہ مسائل الشریعہ میں ہماری احدیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے اُن پر حجت ہوں۔

عمر ابن حنظلہ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا! 
جو ہماری حدیثوں کی روایت کرتا ہو اور ہمارے حلال و حرام میں گہری نظر رکھتا ہو اور ہمارے احکامات سے واقف ہو تو اُس کا حکم ماننے پر راضی ہو جاٶ اس لیئے کہ ہم نہیں انہیں تم پر حاکم بنایا ہے اور اگر وہ کوئی حکم دے اور اسے کوئی قبول نہ کرے تو اس نے خداوندِعالم کے حکم کو حقیر سمجھا اور ہماری بات اور حکم کو ٹھکرا دیا اور جس نے ہمارے حکم سے سرکشی کی تو اس نے خدا سے سرکشی کی اور خدا سے سرکشی کرنا کفر و شرک ہے۔
(وسائل الشیعہ جلد18 باب11 ابواب صفات القاضی روایت اول صفحہ98۔  حلیتہ الاولیا جلد3 صفحہ196۔  الامام الصادق جلد3 صفحہ32۔  نہج المقال صفحہ 86)

وسائل الشیعہ باب10 کتاب القضا میں امام حسنؑ عسکری سے مرقوم ہے کہ:
فقہا میں سے جو شخص بھی اپنے نفس کو بیچتا نہ ہو دین کی حفاظت کرتا ہو خواہشاتِ نفسانی کی مخالفت کرتا ہو اپنے پروردگار کا مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام کے لیئے لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں۔

۔
کچھ لوگ جو مکمل قرآن بھی نہیں پڑھے ہوتے مدرسے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی اور مڈل فیل ہوتے ہیں اور انتہائی چھوٹی زہنیت کے حامل ہوتے ہیں ایسے لوگ منبر سے مجتہدین پر تبراء کرتے ہیں فحش گوئی کرتے ہیں اور مجتہد کے فتوئے کے رد میں اپنے ناقص دلائل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں آنکھیں دی ہیں ہم از خد قرآن و حدیث سے مسائل کے جوابات اخز کر سکتے ہیں۔
لہزا ایسے دیوانے لوگوں کے لیئے اس موضوع پر روشنی ڈال رہا ہوں کہ مجتہد کا علم کتنا ہوتا ہے کون کونسے امور کو پیش نظر رکھ کے مجتہد فتویٰ دیتا ہے۔
زرا ملاحضہ کریں مجتہدین کی تعلیم👇

محدث کی صداقت کا علم

اسنادِ حدیث کا علم 

حدیث عالی کا علم

حدیث نازل کا علم

روایات موقوفہ کا علم

ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبرؐ اسلام سے زکر نہ ہو

صحابہ کے مراتب کا علم

احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کی معرفت

تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم

اسناد مسلسل کا علم

احادیث معنعنہ کا علم 

روایات معضل کا علم 

احادیث مدرج کی پہچان کا علم 

تابعین کی شناخت کا علم

اتباع تابعین کی معرفت

اکابرواصاغر کی معرفت 

اولادِ اصحاب کی معرفت

علم جرح و تعدیل کی معرفت

صحیح و سقیم کی پہچان

فقہ الحدیث کا علم

ناسخ و منسوخ احادیث کا علم

متن میں جو غریب الفاظ استعمال ہوں ان کا علم

احادیث مشہور کا علم 

غریب اور نامانوس احادیث کا علم 

احادیث مفرد کی پہچان 

ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں

حدیث کی عِلتوں کی پہچان

شاذ روایات کا علم 

پیغمبرؐ کی ان حدیثوں کا جاننا جو دوسری احدیث سے معارض ہوں

ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رُخ کسی رُخ سے معارض نہ ہو

احادیث میں الفاظِ زائد کی معرفت 

محدثین کے مزہب کی اطلاع 

متون کی تحریری غلطیوں سے آگاہی 

مزاکرہ حدیث کا جانچنا 

اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع

صحابہ تابعین اور ان کے بھائی بہنوں کی عصرِ حاضر تک معرفت

اُن صحابہ تابعین تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو

اصحابِ تابعین اور ان کے پیررٶوں میں سے جو راوی ہیں عصرِ حاضر تک اُن کے قبائل کی معرفت 

صحابہ سے عصرِ حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم

محدثین کے ناموں کا علم

صحابہ تابعین تباع تابعین اور عصرِ حاضر تک ان کے پیرٶوں کی نیت کا جاننا 

راویانِ حدیث کے وطن کی پہچان 

صحابہ تابعین تباع تابعین کی اولاد اور غلاموں کی معرفت 

محدثین کی عمر کی اطلاع ولادت سے وفات تک

محدثین کے القاب کی معرفت

ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں

راویوں کے قبائل وطن نام کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان 

غزواتِ پیغمبرؐ ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے

اصحابِ حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے

اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ زیل اقسام کا علم بھی👇
صحیح۔حَسن۔ضعیف۔مسند۔متصل۔مرفوع۔موقوف۔مقطوع۔مرسل۔معضل۔تدلیس۔شاذ۔غریب۔معنعن۔معلق۔مفرد۔مدرج۔مشہور۔مصحف۔عالی۔نازل۔مسلسل۔معروف۔منکر۔مزید۔ناسخ۔
منسوخ۔مقبول۔مشکل۔مشترک۔موتلف۔مختلف۔مطروح۔متروک۔مول۔مبین۔مجمل۔معلل۔مضطرب۔مہمل۔مجہول۔موضوع۔مقلوب۔حدیث ماثور۔قدسی۔عزیز۔زائدالثقہ۔موثق۔
متواتر۔

لہزا جن لوگوں کو تقلید اور مجتہد کے فتوے سے مسئلہ ہے اور خد کو مرجع عزام سے اولا جانتے ہیں تو یہ انہوں کی ایک زہنی بیماری ہے اور اس بیماری کا علاج صرف علم ہے کیونکہ یہ مرض جہل کی زیادتی کے سبب ہوتا ہے۔
۔
التماسِ دعا

IMAM MAHDI KA ZAHOOR

IMAM MAHDI KA ZAHOOR


Imam Mahdi a.s. nekokaar maise honge jo RasoolAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ke aal maise honge jo aakhri waqt me zahir honge jiske zarye Allah insani muamlat ko sidha karenge aur dunya ko achai aur insaf se bhar denge.
Imam Mahdi ka naam “Muhammad ibn ‘Abd-Allaah al-Mahdi, ya Ahmad ibn ‘Abd-Allaah al-Mahdi hoga jo Nabi ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ke ahle bayt me se sayyada Fatima r.a. ke bete sayyadna Hasan bin Ali r.a. ki aulad me se honge.
Hazrat Abdulla bin Masood r.t.a. bayan karte hain ke RasulAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya, “Ager dunya ka ek roz bhi baki hoga to Allah taala us din ko taweel kardega hatta ke is me ek aise shakhs ko maboos farmayega jo mujh se hoga ya Aap ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya ke jo mere Ahle bayt se hoga. Us ka naam mere naam aur us ke walid ka naam mere walid ke naam ke mutabik hoga”.
(Jamia Tirmizi Hadith- 2230)

IMAM MAHDI a.s. KI SIFAT :

Hazrat Abu Saeed Khudri r.t.a. bayan karte hain ke RasulAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya, “Mahdi mujhse hoga yani meri nasal se hoga. Fir Aap ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne un ki jismani sifat bayan ki aur farmaya,
“Wo chaudi peshani aur lambi naak wala hoga. Wo zameen ko adl o insaf se isi tarah bhardega jaise wo zulm o zor se bhari huwi thi. Us ki hukumat 7 baras tak rahegi”.
Sunan Abu Daud Hadith- 4285.
Abu Sa’eed al-Khudri r.a. riwayat karte hai ki RasoolAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya, “Wo(Imam Mehdi) ham maise honge jiske piche ‘Eesaa ibn Maryam namaz padhenge”.
(Reported by Abi Na’eem in Akhbaar al-Mahdi. Al-Albaani said it is saheeh; see al-Jaami’ al-Sagheer, 5/219, hadeeth 5796).


IMAM MAHDI a.s. KA ZAHOOR KA WAQT:

Quran aur sunnah se exactly ye nahi pata chalta hai ki Mahdi a.s. ka zahoor kab hoga lekin wo aakhri waqt me ayenge. Unka nuzool Qayamat ki choti nishanio maise aakhri nishani hogi. Mahdi a.s. ka Zuhoor jo Dajjal se pahle aur ‘Eesa ibn Maryam ke nuzul hone se pahle honge. Ye in hadith se pata chalta hai.
Jabir r.a. riwayat karte hai ki RasoolAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya Eesaa ibn Maryam nazil honge aur inke Imam, Mahdi farmaenge, “Aaiye aur hamari namaz ki Imamat karye”, lekin wo farmayenge, “Nahi”, Ap logo maise koi Imamat kare, ye Allah ke taraf se is ummah ke liye izzat hai.
Narrated by Muslim, 225.
‘Abdullaah ibn Mas’ood r.a. riwayat karte hai ki RasoolAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya, ” Dunya us waqt tak khatm nahi hogi jab tak mere ahle bait maise ek shaks jo mere naam ka hoga Arab ka Hukmaran na ban jaye.
Musnad Ahmad, 5/199, hadeeth 3573.
Kuch log Imam Mahdi ko jhutlane ke liye ek hadith pesh karte hai jisme RasoolAllah ѕαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм ne farmaya hai,” ‘Eesa ibn Maryam se alag koi Mahdi nahi hai.” (matlab Eesa a.s. ke alawa aur koi nahi ayega is ummat me)
Lekin Is hadith ko Sheikh Albani ne Daif karar diya hai. Dalail ke liye dekhye:- al-Silsilah al-Da’eefah, 1/175, by al-Albaani .
Agar apko Mehdi a.s. ke bareme Full Detail se janna hai to in authentic kitabo ko refer kare:
1. Al-Mahdi Haqeeqah wa laa Khuraafah by Shaykh Muhammad ibn Ismaa’eel.
2. Al-Mahdi al-Muntazar by Dr. ‘Abd al-‘Aleem al-bastawi.
3. Ashraat al-Saa’ah by Yoosuf al-Waabil.

Sunday 7 January 2018

’امریکی جارحانہ بیانات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سود مند ثابت نہیں ہوں گے‘



صدر ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹویٹ پر جمعرات کو پاکستانی پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس منعقد ہوا ہے۔
اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے پارلیمانی رہنماؤں کو منگل کو قومی سلامتی کمیٹی اور بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا۔
دوسری جانب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں امریکی کانگریس کے ارکان کو آگاہ بھی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں قومی سلامتی امور سے متعلق حالیہ دنوں منعقد ہونے والی ملاقاتوں کی وجہ سال نو کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ ٹویٹ تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ 'امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔
صدر ٹرمپ کی اس ٹویٹ کے بعد اقوام متحدہ میں امریکہ کی مسقتل سفیر نکی ہیلی نے پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو دی جانے والی 255 ملین ڈالر کی عسکری امداد روکی جا رہی ہے۔
ان کے اس بیان کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں مزید اقدامات بھی کرے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں امریکی کانگریس کے ارکان کو آگاہ بھی کیا جا رہا ہے جبکہ اس حوالے سے باضابطہ اعلان جمعرات تک متوقع ہے۔
روئٹرز کے مطابق کانگریس کے دفاتر میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے انھیں اطلاع دی ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان جمعرات کو کیا جائے گا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنی امداد بند ہو گی، کون سی ہو گی اور کتنے عرصے تک بند رہے گی۔




ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...