Tuesday 14 November 2017

*تعارف علماء شیعہ برصغیر پاک و ہند**شہید ثالث سید نور اللہ شوستری مرعشی*

*تعارف علماء شیعہ برصغیر پاک و ہند*
*شہید ثالث سید نور اللہ شوستری مرعشی*
سید نور اللہ شوشتری (۹۵۶ -۱۰۱۹ق) یا مرعشی جنہیں شہید ثالث کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ایک فقیہ، اصولی، متکلم، محدّث اور شیعہ شاعر تھے۔
احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کرتے ۔
جہانگیر دور کے بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
*ولادت و نسب*
                       سید نوراللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری کو ایران کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے ۔ان کا نسب امام زین العابدین(ع) تک پہنچتا ہے ۔ان کے باپ سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔
آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی اور قاضی نوراللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتے جو انکے آثار سے واضح ہے ۔
*برصغیر کی طرف ہجرت*
                                      سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے ۔مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی ،ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں ۔یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا ۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔اس زمانے میں ہندوستان پرامن ترین علاقہ تھا ۔
برصغیر پر امن حالات اکبر بادشاه کی طرف لوٹتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا ۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندہ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی ۔نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کی سنگ بنیاد رکھی
اکبر بادشاه عمرانیات کے علاوہ فلسفی مسائل سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا ۔لیکن دین کی نسبت کوئی زیادہ دیندار نہیں تھا ۔ اسی فکر کی بدولت اس نے مختلف ادیان سے ایک دین بنانے کی کوشش کی ۔
قاضی نوراللہ شوشتری آگره میں اکبر بادشاہ پاس آنے سے پہلے فتح پور سکری میں ابوالفتح مسیح الدین گیلانی ایرانی طبیب حاذق اور بڑے شاعر کے پاس گئے ۔جہاں مخلف علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد ۹۸۳ میں وارد ہندوستان ہوئے ۔اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت جلد ہی اکبر بادشاه کے مقربین میں ہو گئے ۔ مسیح الدین شوشتری نے اکبر بادشاه سے ان کا تعارف کروایا۔ سید نوراللہ شوشتری حضرت علی(ع) کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب اکبر بادشاہ کو ہدیہ کی ۔
*قاضی القضات کا عہدہ*
                                     سید نے دو ماه آگرے میں رہے اسکے بعد اکبر بادشاه کے ہمراہ لاہور آئے ۔ لاہور کا قاضی ایک سن رسیدہ شخص بنام «شیہ معین» تھا ۔ بادشاہ نے اسکی جگہ سید نوراللہ کو قاضی بنایا ۔
نور اللہ شوشتری نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا :ہو سکتا ہے کہ وہ دینی مسائل کی اصلی منابع کے مطابق تحقیق کرے ، اسکی بدولت فقہی حکم بیان کرے اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہو گا کہ وہ کسی ایک مسلک کی پیروی کرے اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کرے بلکہ وہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کرے گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جائے گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کرے گا۔
اکبر بادشاه نے قاضی شیعہ ہونے کے باوجود اس میں موجود صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا ۔
*شہادت*
           اکبر شاہ کے بیٹے جہانگیر شاه کے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۰۱۹ ہجری قمری میں اس کے حکم سے کوڑے کھاتے ہوئے شہید ہوئے ۔شہادت کا سبب احقاق الحق و ازہاق الباطل کی تالیف تھی ۔ایک قول کے مطابق مجالس المؤمنین تھی. برصغیر میں آپ شہید ثالث کے لقب سے معروف ہیں۔
محدث قمی نے انکی شہادت کی درج ذیل تفصیل بیان کی ہے :
قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا ۔درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ قاضی شیعہ ہے ، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے ۔ جہانگیر شاه نے انکے بیانات کو اسکے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا : اس نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا ۔
ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا ۔ایک شخص کو شیعہ ظاہر کر کے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا ۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور وہ قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہوا اور اس نے مجالس المؤمنین اس سے لی اور درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی ۔ انہوں نے اس کتاب کو اسکی تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بادشاہ سے کہا: اس نے اس کتاب میں ایسے ایسے لکھا ہے لہذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے ۔جہانگیر نے پوچھا اسکی حد کیا ہے؟انہوں نے جواب دیا: اسکی سزا کوڑے ہے۔ بادشاہ نے یہ کام انکے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے ۔
آپ کوخاردار لکڑی کے تختے پر 70سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔
قاضی نور اللہ کا مزار ہندوستان کے شہر آگرا میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔
*اللھم صل علی محمد و آل محمد وعجل فرجہم*

No comments:

Post a Comment

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.

ملا صدر الدین شیرازی عرف ملا صدرا.  تحریر : سید ذوالفقار علی بخاری.  ایک بار ضرور پڑھے.   نوٹ.   فیس بک پر کچھ ایسی پوسٹ نظر سے ...